عمل کے ذریعے بھی اس کو واضح فرمایا ہے، بلکہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو ان معاملات میں بھی مساوات فرماتے تھے، جن میں مساوات لازم نہیں۔ایک حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ’’ جس شخص کے نکاح میں دو عورتیں ہوں اور وہ ان کے حقوق میں برابری اور انصاف نہ کرسکے، تو وہ قیامت میں اس طرح اُٹھایا جائے گا، کہ اس کا ایک پہلو گرا ہوا ہوگا۔‘‘(۲۰)
البتہ یہ مساوات ان اُمور میں ضروری ہے جو انسان کے اختیار میں ہیں، مثلاً نفقہ میں برابری، شب باشی میں برابری، رہا وہ اَمر جو انسان کے اختیار میں نہیں، مثلاً قلب کا میلان کسی کی طرف زیادہ ہوجائے، تو اس غیر اختیاری معاملے میں اس پر کوئی مواخَذہ نہیں، بشرطیکہ اس میلان کا اثر اختیاری معاملات پر نہ پڑے، رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی اختیاری معاملات میں پوری مساوات قائم فرمانے کے ساتھ حق تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کیا:’’ اللّٰہم ہذا قسمي فیما أملک فلا تلمني فیما تملک ولا أملک ‘‘ ۔’’یا اللہ! یہ میری برابر والی تقسیم ہے، اُن چیزوں میں جو میرے اختیار میں ہیں، اب وہ چیز جو آپ کے قبضے میں ہے، میرے اختیار میں نہیں ہے، اس پر مجھ سے مؤاخذہ نہ کرنا۔‘‘ (۲۱)
ظاہر ہے کہ جس کام پر ایک رسول معصوم بھی قادر نہیں، اس پر کوئی دوسرا کیسے قادر ہوسکتاہے، اس لیے قرآن کریم کی دوسری آیت میں اس غیر اختیاری معاملے کا ذکر اس طرح فرمایا:{ولن تستطیعوٓا ان تعدلوا بین النسآء}-’’ عورتوں کے درمیان تم پوری برابری ہرگز نہ کرسکوگے۔‘‘
جس میں بتلادیا کہ میلانِ قلب اور محبت ایک غیر اختیاری معاملہ ہے، اس میں