تاکہ مرد کسبِ معاش میں اس کا معاون ومددگار، اور اس کی عزت وآبرو کا پاسبان ہو ، ٹھیک اسی طرح مرد کو بھی عورت کی ضرورت ہے ، تاکہ وہ اس کے مال کی حفاظت وصیانت اور اس کے امورِخانہ دار ی کے فرائض کو انجام دے ، اور متاعبِ حیات (Troublesome of life) کو اس سے دور کردے ،اور مرد کی یہ ضرورت اسی وقت پوری ہوگی جب کہ وہ کسی عورت سے رشتۂ نکاح کو قائم کرے ، اسی مقدس رشتے کو قرآنِ حکیم نے میثاقِ غلیظ سے تعبیر فرمایا : {وأخذن منکم میثاقاً غلیظاً}۔ اور وہ (بیویاں) تم سے ایک مضبوط اقرار لے چکی ہیں۔(سورۃ النساء:۲۱)
نکاح خاندانوں میں اتحاد وارتباط اور اسبابِ بغض وعداوت کے دور کرنے اور عفت وپاک دامنی کا بہترین ذریعہ ہے ۔ (ردالمحتار:۴/۵۸)
اسی طرح حضور اکا ارشاد ہے : ’’ یا معشر الشباب ! من استطاع منکم الباء ۃ فلیتزوج ؛ فإنہ أغض للبصر وأحصن للفرج ، ومن لم یستطع فعلیہ بالصوم، فإنہ لہ وجاء ‘‘ ۔ اے نوجوانوکی جماعت! تم میں جو نکاح کی استطاعت رکھے اسے چاہیے کہ وہ نکاح کرلے ، کیوں کہ اس سے نگاہیں نیچی رہتی ہیں اور شرم گاہ کی حفاظت ہوتی ہے۔ (متفق علیہ واللفظ لمسلم)
ا سلامی تعلیمات کا اصل رخ یہ ہے کہ نکاح کا معاملہ اور معاہدہ عمربھر کے لیے ہو ، اس کو توڑنے اور ختم کرنے کی نوبت ہی نہ آئے ، کیوں کہ اس معاملہ کے ٹوٹنے کا اثر صرف میاں بیوی پر ہی نہیں پڑتا ، بلکہ نسل واولاد کی تباہی وبربادی اور بعض اوقات خاندانوں اور قبیلوں میں فساد تک کی نوبت پہنچتی ہے ، اور پورا معاشرہ بری طرح متأثر ہوتا ہے۔ اسی لیے شریعتِ اسلامیہ نے میاں بیوی کو وہ ہدایتیں دی ، جس پر عمل پیرا ہونے سے یہ رشتہ زیادہ سے زیادہ مضبوط ومستحکم ہوتا چلا جاتا ہے ۔