اگر بیوی کی طرف سے کوئی ایسی صورت پیش آئے جو شوہر کے مزاج سے ہم آہنگ نہ ہو، تو شوہر کو حکم دیا گیا کہ وہ افہام وتفہیم اور زجرو تنبیہ سے کام لیں، اگر با ت بڑھ جائے او راس سے بھی کام نہ چلے، تو خاندان ہی کے چند افراد کو حکم اور ثالث بناکر معاملہ طے کرلیا جائے۔ ارشادِ خداوندی ہے:{وإن خفتم شقاق بینہما فابعثوا حکمًا من أہلہ وحکمًا من أہلہا إن یریدٓا إصلاحًا یوفق اللّٰہ بینہما} ۔ اور اگر تمہیں دونوں کے درمیان کشمکش کا علم ہو، تو تم ایک حکم مرد کے خاندان سے اور ایک حکم عورت کے خاندان سے مقررکردو، اگر دونوں کی نیت اصلاحِ حال کی ہوگی، تو اللہ دونوں کے درمیان موافقت پیدا کردے گا۔ (سورۃ النساء:۳۵) لیکن بعض اوقات میاں بیوی کے مزاج کا ہم آہنگ نہ ہونا، اور دونوں میں اس قدر بغض وعداوت ہوجانا کہ دونوں ایک ساتھ رہ کر ایک دوسرے کے حقوقِ واجبہ ادانہ کرسکتے ہوں، اور اصلاحِ حال کی تما م کوششیں ناکام ہوچکی ہوں ، اور تعلقِ نکاح کے مطلوبہ ثمرات حاصل ہونے کے بجائے میاں بیوی کاآپس میں مل کر رہنا ایک عذاب بن جاتا ہو،تو ایسی صورت میں اس ازدواجی تعلق کو ختم کرناہی طرفین کے لیے سامانِ راحت وسلامتی ہوتا ہے ، اس لیے شریعت نے طلاق کو مباح قرار دیا۔
علامہ شامی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: محاسنِ طلاق میں یہ داخل ہے کہ شریعت نے طلاق کا اختیار صرف مرد کو دے رکھا ہے ، کیوں کہ وہ عورت کے مقابلے میں کامل العقل ہوتا ہے ، اور کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے وہ اس کے عواقب ونتائج پر غور کرلیتا ہے ، جب کہ عورت کی صفتِ عقل ودین میں نقصان ہوتا ہے ، اوروہ خواہشات سے مغلوب ہوتی ہے۔ اور یہ بھی محاسنِ طلاق میں داخل ہے کہ آدمی کو دینی ودنیوی مکارِہ سے چھٹکارا مل جاتا ہے۔ (ردالمحتار:۲/۴۲۹)لیکن اس خلاصی وچھٹکارے کے لیے اسی طریق وترتیب کو اپنانا ضروری ہے جو شریعت نے بتلائی ہے ، اس کی خلاف ورزی کرنا شرعاً حرام ہے۔
مفتیٔ اعظم حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’شریعت نے معاہدۂ