خلاصۃالفتاوی میں ہے:’’ وما وصل إلی جوف الرأس والبطن من الأذن والأنف والدبر فہو مفطر بالإجماع ، وفیہ القضاء ، وہي مسائل الإفطار في الأذن والسعوط والوجور والحقنۃ ، وکذا من الجائفۃ والآمۃ عند أبي حنیفۃ ‘‘ ۔ (۱/۲۵۳)
(ب): بواسیر کے مرض میں ان مسوں پر مرہم لگانا جو باہر ہی رہتے ہیں، دوا لگانے سے روزہ فاسد نہیں ہوگا، ان مسوں کو ظاہرِ بدن کا حکم حاصل ہوگا، اور ظاہرِ بدن پر دوا لگانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔
اسی طرح وہ مسّے جو بوقتِ استنجا باہر نکل آتے ہیں، اور فراغت پر انہیں پانی سے تَرکرکے انگلی وغیرہ کی مدد سے اُوپر چڑھانا ہوتا ہے۔ پَر دوا لگانے سے روزہ نہیں ٹوٹے گا،کیوںکہ یہ مسے موضعِ حقنہ سے بہت نیچے ہوتے ہیں، اور مقعد کی راہ سے داخل ہونے والی چیز اسی وقت مفسد صوم ہوتی ہے، جب موضعِ حقنہ تک پہنچے۔
(احسن الفتاویٰ:۴/۴۴۰ ، خیرالفتاویٰ:۴/۵۹)
علامہ شامی رحمہ اللہ ’’تنویر الابصار‘‘ کے متن:(أو أدخل اصبعہ الیابسۃ فیہ أي دبرہ أو فرجہا ولو مبتلّۃ فسد ‘‘ کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ قولہ : ولو مبتلّۃ فسد لبقاء شيء من البلّۃ في الداخل ، وہذا لو أدخل الاصبع إلی موضع الحقنۃ ‘‘ ۔ (رد المحتار:۳/۳۶۹)
(ج): اَمراضِ معدہ کی تحقیق کے لیے بعض جدید آلات، معدے میں داخل کیے جاتے ہیں، اگر اس پر کوئی (Liquid) سیال مادہ وغیرہ نہ لگایا گیا ہو، تو محض اس آلے کو داخل کرکے نکالنے سے روزہ فاسد نہیں ہوگا۔ جیسا کہ ’’البحر الرائق‘‘ کی اس عبارت سے مفہوم ہوتا ہے۔