لا لکونہ رطبا أو یابسا ، وإنما شرطہ القدوري ؛ لأن الرطب ہو الذي یصل إلی الجوف عادۃ ، حتی لو علم أن الرطب لم یصل لم یفسد ، ولو علم أن الیابس وصل فسد صومہ ۔ کذا في العنایۃ ‘‘ ۔
(البحر الرائق :۲/۴۳۸ ، الفتاوی الہندیۃ :۱/۲۰۴)
شیخ الاسلام، قاضی القضاۃ ابو الحسن علی ابن الحسین ابن محمد السغدی رحمہ اللہ ’’النتف فی الفتاویٰ‘‘ میںفرماتے ہیں: ’’ وأما من الدبر فواحدۃ وہي الاحتقان فلا یفسد منہ الصوم في قول أبي عبد اللّٰہ ، ویفسد في قول أبي حنیفۃ وأصحابہ ‘‘ ۔ (حقنہ لگانے سے ابو عبد اللہ کے نزدیک روزہ فاسد نہیں ہوتا، البتہ امام ابو حنیفہ اوران کے اصحاب کے نزدیک روزہ فاسد ہوجاتاہے)۔ (ص/۱۰۳)
علامہ شامی رحمہ اللہ نے ’’ باب ما یفسد الصوم وما لا یفسد ‘‘میں ’’تنویر الابصار‘‘ کے متن: (أو احتقن أو استعط أو أقطر في أذنہ دھنًا أو داوی جائفۃ أو آمۃ) کے ذیل میں بڑی اچھی بات ذکر فرمائی کہ:
احتِقان (پیچھے کی راہ سے دوا کا اندر پہنچانا)، اِستعاط (ناک میں دوا چڑھانا) اِقطار (کان میں دوا ٹپکانا)کو فقہائے کرام نے ’’وصول‘‘ کی قید کے ساتھ اس لیے مقید نہیں فرمایا کہ ظاہر یہ ہے کہ ان تینوں صورتوں میں وصول ہو ہی جاتا ہے، اس لیے روزہ فاسد ہوگا۔ ’’ قلت : ولم یقیدوا الاحتقان والاستعاط والإقطار بالوصول إلی الجوف بظہورہ فیہا ، وإلا فلا بد منہ ، حتی لو بقي السعوط في الأنف ولم یصل إلی الرأس لا یفطر ‘‘ ۔ (رد المحتار:۳/۳۷۶) -- ’’ وإذا احتقن یفسد صومہ ‘‘ ۔
(الفتاوی التاتارخانیۃ :۲/ ۳۶۵ ، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح :ص/ ۳۶۷ ، باب ما یفسد الصوم ویوجب القضاء من غیر کفارۃ ، فتاوی قاضي خان علی ہامش الہندیۃ :۱/۲۱۰، الفصل السادس فیما یفسد الصوم)