اب جب شادی بیاہ یا مذکورہ دعوت کا موقع ہوتا ہے تو سرِراہ کرسیاں لگائی جاتی ہیں، جس کی وجہ سے وہ مزید تنگی کا شکار ہوجاتی ہیں، اورراہ گیروں کو بڑی تکلیفوں کا سامناہوتا ہے، شرعاً یہ عمل ایذا رسانی میں داخل ہوکر ممنوع وحرام ہے،اب اگر کوئی اہلِ علم وعقل اس پر احتجاجاًکچھ کہتا ہے، تواس کی ایسی اصلاح کی جاتی ہے کہ دو بارہ اس طرح کی اصلاح کا خیال بھی اس کے ذہن ودماغ میں نہیں آسکتا۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے بزرگانِ دین نے حج کی اس طرح کی دعوتیں جن میں ریا اور فخر کی شان ہو ، اور انہیں لازم وضروری تصور کیا جائے، اپنے پاس پیسہ نہ ہونے کی صورت میں قرض لے کر کی جائیں، یا ان میں دیگرمفاسد و منکرات پائی جائیں، ان سے پرہیز کا حکم دیاہے، کہ اس طرح کی دعوتیں نہ کھلائیں اور کھائیں؛کیوں کہ فقہ کا قاعدہ ہے :’’ ممنوع ومحظور کا سبب بھی ممنوع ومحظور ہوتا ہے۔‘‘ ’’ ما کان سببًا لمحظور فہو محظور ‘‘ ۔ (شامی :۵/۲۲۳، نعمانیہ، فتاوی محمودیہ: ۱۰/۴۵۹، ط: کراچی)
نوٹ:- حضرات علمائے کرام سے گزارش ہے کہ حاجیوں کی یہ دعوت جو رسم بنتی جارہی ہے ، اس سے عوام کو روکنے کی کوشش کریں، کیوں کہ ابھی ابتدا ہے ، اگر اس رسم نے معاشرہ میں اپنی جڑیں مضبوط کرلی، تو پھرآئندہ ہمیں اس کے خلاف اپنی تحریروں اور تقریروں میں ویسی ہی آواز اٹھانی ہوگی جیسے تلک وجہیز کی رسم کے خلاف ، مگر یہ حقیقت ہے کہ اس وقت ہمیں وہ کامیابی نہیں ملے گی جس سے آج ہم سرفراز ہوسکتے ہیں۔ایک عربی شاعر کہتا ہے:
ولـکن اخـو الحزم لیـس نـازلا٭بہ الخطب إلا ہو للقصد مبصر
’’عقل مند انسان وہ ہے جو مصیبت وآفت کی آمد سے پہلے اس کے دفاع کاسامان تیار رکھے‘‘۔ اللہ پاک ہمیںرسومات وخرافات سے بچائے !
و ما علینا إلا البلاغ !