اگر نہیں ہے تو کیا یہ غریب مسلمانوں کا استحصال نہیں ہے ، جو محض مجبوری میں آپ کو اتنی بڑی بڑی رقمیں دے رہے ہیں ، اور آپ اس کو صرف حلال ہی نہیں بلکہ مبارک ومسعود خیال کررے ہیں، جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ’’ لا یحل مال امرئ مسلم إلا بطیب نفس منہ ‘‘۔(جمع الجوامع: ۹/۷، رقم : ۲۶۷۶)کسی مسلمان شخص کا مال دوسرے کے لیے اس کی رضامندی اور خوش نودی کے بغیر حلال نہیں۔
ان ٹوروالوں کو ایک بات یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جب مالِ حرام مالِ حلال سے ملتاہے ، تو وہ اسے ہلاک وبرباد کرکے رکھ دیتاہے ۔
تعجب تو اس پر ہے کہ اتنی خطیر رقمیں وصول کرنے کے بعد پھر یہ اشتہار دیئے جاتے ہیں:
’’حاجیوں کی خدمات ہمارا نصب العین‘‘ ، ’’ٹورسے جائیے اور اطمینان وسکون سے حرمین میں عبادت کیجئے۔‘‘
بھلا بتلائیے یہ کیسی خدمت ہے کہ خدمت کے بعد مخدوم بجائے راحت محسوس کرنے کے تکلیف محسوس کرے، جب آپ نے اس کو پوری طرح سے نچوڑلیا، تو وہ حرمین میں اطمینان وسکون سے کیسے عبادت کرے گا۔ہاں! سکون واطمینان اس اعتبار سے ہوسکتا ہے کہ اب اپنے جیب میں پیسہ ہی نہیں، تو بازار وغیرہ کیا جائیں۔لیکن کسی کو اس کی عبادت میں اس طرح سکون واطمینان مہیا کرانا شریعتِ اسلامیہ میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الرحمن بن ناصرالبراک فرماتے ہیں :جو شخص حج کا ارادہ نہیں رکھتا اس کے لیے ویزا حاصل کرنا جائز نہیں ہے۔اگر کسی ایسے شخص نے ویزا حاصل کیا جس کا حج کرنے کا ارادہ تھا، مگر اب کسی وجہ سے اس کا ارادہ نہیں ہے ، تو اس کے لیے اس ویزا کو اس سے زائد قیمت میں فروخت کرنا جائز نہیں ہے، جو اس نے اس کے لیے حاصل کرنے میں خرچ کی، یعنی حج کے ویزا کو ایسی تجارت نہ بنایا جائے، جس میں ضعیف اور حج کے حریص مسلمانوں سے ناحق فائدہ اٹھایا جائے، بلکہ ایک مسلمان کے شایانِ شان تویہ ہے کہ وہ کارِخیر میں