حج وِیزا کی خریدوفروخت نہ تو عقد بیع میں داخل ہے اور نہ عقد اجارہ میں داخل ہے ، عقد بیع میں اس لیے نہیں کہ وِیزا مال نہیں ہے، جس کی خریدوفروخت کی جاسکے ، اور عقد اجارہ میں اس لیے داخل نہیں کہ عقد اجارہ کہتے ہیں ایسے عقد کو جس میں آدمی اَعیان کے منافع کا مالک ہوتاہے ۔’’ عقد الإجارۃ علی منافع الإعیان ‘‘۔(درر الحکام: ۱/۴۵۲) جب کہ وِیزا عینِ شئے ہے ہی نہیں، کہ جس کو باقی رکھ کر اس کے منافع حاصل کیے جاسکیں، حج وِیزا سعودی حکومت کی طرف سے حکومتوں اور ٹورز (Tours) والوں کو مفت حاصل ہوتے ہیں ، اس پر سعودی حکومت ان سے کسی قسم کی کوئی رقم نہیں لیتی ، اور نہ یہ کوئی مال ہے کہ حکومتوں اور ٹور والوں کو ان کامالک بنایا گیا ہو، اور وہ اپنے حقِ ملک کی وجہ سے اس کو فروخت کررہے ہوں ، بلکہ حج ویزا خالصۃًایک اجازت نامہ ہے ، جس کی بنیاد پر آدمی سعودی حکومت کی حدود میں ایک مخصوص وقت تک داخل ہوسکتاہے اورقیام کرسکتاہے ۔ اور بس!
اب بعض لوگوں نے ٹوراینڈ ٹر اویلس کمپنیا ں قائم کی ، اور اس نام سے سعودی حکومت سے حج ویزا حاصل کرکے اس کی خریدوفروخت کا سلسلہ جاری کردیا ، اور وہ یہ سمجھ رہے ہیں کی یہ ایک اچھا ،منافع بخش اور حلال کاروبار ہے ، جب کہ یہ ایک حرام اور ناجائز کاروبار ہے ، اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کا حکم وہی ہے جو مالِ حرام کا ہے ، بعض ٹوروالے یہ کہتے ہیں کہ ہم ویزا فروخت نہیں کرتے بلکہ جو رقم ہم حاجیوں اورعمرہ کرنے والوں سے لیتے ہیں ، وہ ان کے دورانِ سفر مکہ ومدینہ کے طعام وقیام وغیرہ کی فیس ہے۔بھلا یہ تو بتائیں کہ آپ جو حاجیوں کو کھانا کھلارہے ہیں اور جس جگہ قیام کروارہے ہیں کیا واقعی وہ اس قدر مہنگا ہے ؟