سے بول بول کر، کنویں کے منہ پر بیٹھے ہوئے شاگردوں کو لکھوائی گئی،جو آج فقہ حنفی کے لیے معتبر ومستند مرجع کی حیثیت رکھتی ہیں، اور کوئی بھی فقیہ اپنی بات کے اعتبار واعتماد کے لیے اس سے مستغنی وبے نیاز نہیں ہوسکتا۔
امام سرخَسی رحمہ اللہ کے تقریباً تمام تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ وہ کنویں سے جو املا کراتے تھے ، وہ خالص اپنی یاد داشت کی بنیاد پر کراتے تھے، کسی کتاب کی مدد انہیں حاصل نہیں تھی، اور یہ بات ظاہر بھی ہے کہ کنویں میں قید ہونے کی حالت میںدوسری کتابوں سے باقاعدہ استفادہ بظاہر ممکن نہ تھا۔جن حضرات نے مبسوط سے استفادہ کیا وہ اس کرامت کا صحیح اندازہ کرسکتے ہیں، کہ اتنی تحقیقی کتاب جو بعد والوں کے لیے فقہ حنفی کامستند ماخذ بن گئی، کس تمام تر حافظے سے لکھوائی گئی ہے۔
امام سرخسی رحمہ اللہ کا یہ واقعہ مجھے اور آپ کو یہ درس دیتا ہے کہ:
(۱)استاذ میں اپنے کام کی دُھن اور لگن ہونی چاہیے، حالات خواہ موافق ہوں یا مخالف ، فضا سازگار ہو یا ناسازگار، آدمی قید وبند کی صعوبت میں ہو یا آزاد ۔
(۲) استاذ میں یہ جذبہ موج زن ہونا چاہیے کہ اس کے پاس جو بھی علم وفن ہے ، وہ کسی نہ کسی طریق سے محفوظ ومعقول ہاتھوں اور ذہنوں وسینوں میں پہنچ جائے، کیوں کہ یہ علم وفن اس کے پاس اللہ کی امانت ہے، اورہر امانت کی حفاظت اس کے مناسبِ حال ہوا کرتی ہے، علم وفن جیسی امانت کی حفاظت یہی ہے کہ صاحبِ علم وفن ،اُس علم وفن کے حامل افراد کو پیدا کریں، جسے ہم افراد سازی سے تعبیر کرتے ہیں۔
(۳)اس واقعے سے یہ بھی مستبنط ہوتا ہے، کہ استاذ ہمہ وقت اپنے پاس پڑھنے والے طلبہ واسٹوڈینٹس کے نفع ومفاد کومقدم رکھیں، نہ کہ اپنا نفع وآرامِ جان، اوریہی