امام سرخسی رحمہ اللہ (متوفی ۴۳۸ھ)کا پورا نام محمد بن احمد بن ابوبکر ہے ، وہ پانچویں صدی کے ان علماء میں سے ہیں، جنہیں آیۃ من آیات اللّٰہ(اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی) کہنا چاہیے، آپ اصلاً خراسان کی ایک بستی ’’سرخَس‘‘کے رہنے والے تھے ، اسی کی طرف نسبت کرتے ہوئے آپ کو ’’سرخَسی ‘‘ کہا جاتا ہے، آپ تحصیلِ علم کے لیے’’کرغیزستان‘‘ کے شہر ’’اوزجند‘‘ تشریف لے گئے تھے،اور بعد میں آپ نے وہیں سکونت اختیار کی، آپ نے حاکمِ وقت کی مرضی کے خلاف کوئی فتویٰ دیا ، یا کوئی بات نصیحت کے طور پر کہی جس کی وجہ سے حاکمِ وقت ’’خاقان‘‘نے آپ کو ایک کنویں نماگڑھے میں قید کردیا۔
ڈاکٹر صلاح الدین منجد نے ’’شرح السیر الکبیر‘‘ کے مقدمہ میں اس قید کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ خاقان نے اپنی ایک کنیزکو آزاد کر کے عدت سے پہلے ہی اس سے نکاح کرلیا تھا، امام سرخسی رحمہ اللہ نے اس پر اعتراض کیا ، تو اس نے انہیں قید کردیا، اوروہ سالہاسال کے لیے اس کنویں نما گڑھے میں قید رہے ، جہاں ان کے لیے چلنا پھرنا بھی ممکن نہیں تھا۔ظاہر ہے کہ ان کے شاگردوں کو اس واقعے سے کتنا دکھ ہوا ہوگا، انہوں نے اپنے استاذ کی دل بستگی کے لیے درخواست کی کہ ہم روزانہ اس کنویں کے منہ پر آجایا کریں گے، آپ ہمیں کچھ املا کرادیا کریں۔
علامہ سرخسی رحمہ اللہ پہلے سے چاہتے تھے کہ امام حاکم شہید رحمہ اللہ کی کتاب ’’الکافی‘‘ کی شرح لکھیں، چنانچہ انہوں نے اسی کنویں سے اپنی عظیم کتاب ’’المبسوط شرح الکافی‘‘ املا کرانی شروع کی، اور علم کی تاریخ کا یہ منفرد شاہ کار، اوزجند کے ایک کنویں نما قید خانے میں اس طرح وجود میں آیا کہ ۳۰؍ ضخیم جلدوںکی یہ کتاب کنویں