استعمال درست ہوگا؟ جب کہ یہ فطری منفذ سے داخل نہیں کیا جاتا، لیکن اس کی وجہ سے ترکِ اکل وشرب سے پیدا ہونے والی کیفیت بھی انسان کے اندر متحقق نہیں ہوتی۔
جواب:۵- جسم میں نمکیات کی کمی پوراکرنے اورغذاسے مطلوبہ قوت فراہم کرنے کے لیے جو’’گلوکوز‘‘چڑھایاجاتاہے، یہ چوں کہ ایک حدتک غذاکا متبادل ہے، اس لیے اس سے بھوک کا احساس کم ہوجاتاہے، اوربھوک کی وجہ سے پیداہونے والی کمزوری سے بھی آدمی محفوظ رہتاہے، روزہ کی حالت میں اس طرح ’’گلوکوز‘‘ کو چڑھا نے سے رو زہ فا سد نہیں ہو گا، کیو ںکہ فسادِ صو م کے لیے کسی بھی شئے کا انسا نی پیٹ میں منا فذِ اصلیہ سے پہنچنا ضر و ر ی ہے، جیسا کہ علامہ شا می رحمہ اللہ کی عبا رت: ’’والمفطر إنما ہو الداخل من المنافذ ‘‘ (مفطر صوم وہی چیز ہے، جو جوف میں منا فذِ اصلیہ سے دا خل ہو) سے یہی مفہوم ہو تا ہے۔ (رد المحتار:۳/۳۶۶) اور گلو کو ز چڑ ھا نے میں یہ بات نہیں پا ئی جا تی، خوا ہ گلو کوز چڑھا نے سے بھو ک کا احسا س کم ہو جا تاہو، یا بھو ک سے پیدا ہو نے وا لی کمزوری دور ہوجاتی ہو، فسادِ صوم کا حکم نہیں دیا جا ئے گا، کیوں کہ اکل و شرب اَمرِ بدیہی ہے، اور گلو کو ز چڑ ھا نے پر’’ اکل‘‘ کا اطلا ق نہیں کیا جا سکتا۔ (فتا ویٰ محمو دیہ: ۱۰/۱۴۸، منتخبات نظا م الفتا ویٰ :۱/۱۳۳)
’’شرح مہذب‘‘ کی یہ عبا رت ہے: ’’ لو أوصل الدواء إلی داخل الساق أو غرز فیہ سکینا أو غیرھا فوصلت مخہ لم یفطر بلا خلاف ؛ لأنہ لا یعد عضوا مجوفا ‘‘ ۔ (۵/۳۱۴)
…بھی اس ـپر شا ہد ہے کہ جسم کے کسی بھی حصے میں دو ا وغیر ہ کا دا خل کر نا مفطرِ صو م نہیں۔ بلکہ افطار کے لیے دو شر طیں ہیں: (۱) دخول، منا فذِ اصلیہ سے ہو۔