بدواء یابسٍ لا یفسد ؛ لأنہ لم یصل إلی الجوف ولا إلی الدماغ ، ولو علم أنہ وصل یفسد في قول أبي حنیفۃ ، وإن داواہا بدواء رطبٍ یفسد عند أبي حنیفۃ ، وعندہما لا یفسد ، ہما اعتبر المخارق الأصلیۃ؛ لأن الوصول إلی الجوف من المخارق الأصلیۃ متیقن بہ ، ومن غیرہا مشکوک فیہ ، فلا نحکم بالفساد مع الشک ۔ ولأبي حنیفۃ أن الدواء إذا کان رطبا فالظاہر ہو الوصول لوجود المنفذ إلی الجوف ، فیبنی الحکم علی الظاہر ‘‘ ۔ (۲/ ۲۴۳، ط : زکریا دیوبند)
فتاویٰ ’’ہندیہ‘‘ میںہے: ’’ وفي دواء الجائفۃ والاٰمۃ أکثر المشائخ علی أن العبرۃ للوصول إلی الجوف والدماغ ، لا لکونہ رطبا أو یابسا حتی إذا علم أن الیابس وصل یفسد صومہ ، ولو علم أن الرطب لم یصل لم یفسد ۔ ھکذا في العنایۃ ‘‘ ۔ (۱/۲۰۴)
علامہ شامی رحمہ اللہ اسی سلسلے کی بحث میں فرماتے ہیں: ’’ فالمعتبر حقیقۃ الوصول حتی لو علم وصول الیابس أفسد أو عدم وصول الطري لم یفسد‘‘ ۔ (رد المحتار:۳/۳۷۶ ، خلاصۃ الفتاوی:۱/۵۳ ، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح :ص/۳۶۸) (امدادالفتاویٰ:۱/۱۴۷، احسن الفتاویٰ :۴/۴۳۲، فتاویٰ حقانیہ:۴/۱۶۲، فتاویٰ محمودیہ:۱۰/۱۵۳، فتاویٰ رحیمیہ:۷/۲۵۷، فتاویٰ مفتی محمود:۳/۴۸۹، فتاویٰ دارالعلوم دیوبند:۶/۴۰۸،۴۰۹)
سوال:۵- جسم میں نمکیات کی کمی کو پورا کرنے اور غذا سے مطلوبہ قوت فراہم کرنے کے لیے ’’گلوکوز‘‘ چڑھایا جاتا ہے، یہ چوں کہ ایک حد تک غذا کا متبادل ہے، اس لیے اس سے بھوک کا احساس کم ہوجاتا ہے، اور بھوک کی وجہ سے پیدا ہونے والی کمزوری سے بھی آدمی محفوظ رہتا ہے، روزہ کی حالت میں کیا اس طرح گلوکوز کا