ہیں ،… یہ دونوں طبقے افراط وتفریط کے شکار ہیں، اورشریعتِ محمدی میں افراط وتفریط دونوں غیر محبوب ہیں، کیوں کہ یہ امت ِ وسط ہے ، جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے: {جعلنٰکم أمۃ وسطاً}ہم نے تمہیں ایک امت عادل بنادیا ہے۔(سورۂ بقرہ: ۱۴۳) کہ امتِ محمدیہ افراط وتفریط سے الگ اعتدال کے راستے پر چلتی ہے،اورفقہ کا قاعدہ ہے :’’ خیر الأمور أوساطہا ‘‘ ۔ (قواعد الفقہ :ص/۸۰)
اس لیے ہم بھی علومِ دینیہ وعصریہ کے سلسلے میں اعتدال کا راستہ اپناتے ہوئے کہتے ہیں کہ’’ علومِ عصریہ کا حاصل کرنا نہ صرف مباح بلکہ فرضِ کفایہ ہے‘‘۔جیسا کہ علامہ حصکفی رحمہ اللہ ’’درمختار‘‘ میں فرضیتِ تعلیم کے متعلق فرماتے ہیں :آدمی اپنے دین کے لیے جس قدر علم کا محتاج ہے ، اس کا حاصل کرنا فرضِ عین ہے ، (جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے : ’’ طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم‘‘)۔ اور اس سے زائد دوسروں کی نفع رسانی کے لیے جس علم کا محتاج ہے اس کا حاصل کرنا فرضِ کفایہ ہے‘‘۔ (واعلم أ ن تعلم العلم یکون فرض عین ؛ وہو بقدر ما یحتاج لدینہ ۔ وفرض کفایۃ ؛ وہو ما زاد علیہ لنفع غیرہ) ۔
علامہ ابن عابدین رحمۃ اللہ علیہ اپنی معرکۃ الآراء تصنیف’’رد المحتار‘‘ المعروف بالشامی میں درمختار کی عبارت : (فرض کفایۃ ؛ وہو ما زاد علیہ لنفع غیرہ)کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’فرضِ کفایہ علمِ دینی ودنیوی دونوں کو شامل ہے، علمِ دینی جیسے نمازِ جنازہ ، اورعلمِ دنیوی جیسے ضروری مصنوعات کا علم ،… صاحبِ تبیین المحارم فرماتے ہیںکہ: فرضِ کفایہ سے مرادہرایسا علم ہے ،جس کے بغیر دنیوی امور انجام پذیر نہیں ہوسکتے ،مثلاً: