دونوں کے درمیان ایک حجاب اور ایک مانع قوی رکھ دیا۔(سورۂ فرقان: ۵۳) ،اور {مرج البحرین یلتقیان بینہما برزخ لا یبغیان}اس نے دو دریاؤں کو ملایا کہ باہم ملے ہوئے بھی ہیں(اور) دونوں کے درمیان ایک حجاب (بھی) ہے کہ دونوں (آگے) بڑھ نہیں سکتے۔(سورۂ رحمن:۱۹،۲۰)سے سائنس وٹیکنالوجی کی تعلیم کی اہمیت، افادیت اور فضیلت کو ثابت کرنے کے لیے استدلال کرتاہے۔
(۲)اسی طرح اس کا کہنا یہ ہے کہ :{اقرأ باسم ربک الذي خلقo خلق الإنسان من علق}آپ پڑھئے اپنے پروردگار کے نام کے ساتھ جس نے (سب کو) پیدا کیا ہے، جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔(سورۂ علق: ۱،۲) میں اگر لفظ’’ خلق‘‘ کے معنی ومفہوم پر غور کیا جائے،تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ تحصیلِ علم کے لیے مخصوص علوم کا انتخاب نہیں کیا گیا، بلکہ علم کا میدان کھلا رکھا گیا ہے ، اور ’’ الذي خلق‘‘ کے اطلاق وعمومیت میں نصابِ تعلیم کی وسعت کا ذکر ہے ، کہ اپنے رب کے نام سے ہر اس شی ٔ کا علم حاصل کر جسے اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا۔(پتہ چلا کہ ’’ الذي خلق‘‘ میں تمام علوم ، خواہ وہ علومِ دینیہ شرعیہ ہوں یا علومِ عصریہ ہوں، شامل ہیں۔) نیز اسلام نے صرف قرآن مجید ، تفسیر ، حدیث ، فقہ ، تصوف وغیرہ تک ہی نصابِ علم کو محدود نہیں کیا ، بلکہ اسلام سائنسی علوم اور اپنے عہد کی جدید ترین ٹیکنالوجی کو بھی شاملِ نصاب کیا ہے۔
اسی طرح لفظِ ’’علق‘‘ کا استعمال بھی سائنسی علوم کے نصاب علومِ دینیہ میں شامل ہونے کی دلیل ہے ،کیوں کہ ’’علق‘‘ کا معنی جما ہوا خون بھی کیا جاتا ہے ، یہ ایک حیاتیاتی اصول ہے، جس کا عملِ تخلیق کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ خلاصۂ کلام یہ کہ اسلام کے تصورِ علم میں نصاب کی بھی کوئی حد نہیں ہے۔(یعنی تمام علوم کو شامل ہے ۔)
تجزیہ وتنقیہ: اب آئیے ہم دونوں طبقوں کے نظریات وافکار کا موازنہ کرتے