والطلاق إذا أراد الدخول في شيء من ذلک یجب علیہ طلب علمہ ۔ اہـ ۔ (زجاجہ علی ہامش ابن ماجہ:ص/۲۰)
غرضیکہ علم سے علمِ شرعی ودینی کا مراد ہونا ، نہ صرف کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ سے ثابت ہے ، بلکہ عرف ورواج بھی اس پر شاہد عدل ہے ، کہ لوگ جن فنون کو حاصل کرتے ہیں ،انہیں ان ہی فنون کی طرف منسوب کیا جاتا ہے ، مثلاً: کہا جاتا ہے ڈاکٹر صاحب، انجینئر صاحب، پروفیسر صاحب، وغیرہ۔
خلاصہ : یہ تھا پہلے طبقہ کا نظریہ اور ان کے مستدلات، جو بالتفصیل میں نے آپ لوگوں کے گوش گزار کردیا، اب ملاحظہ ہوں دوسرے طبقہ کا نظریہ اور ان کے دلائل۔
۲؍… دوسرا طبقہ اپنے نظر وفکر کے لیے ان مستدلات سے استدلال کرتا ہے ،مثلاً وہ :(۱) ارشادِ خداوندی: {وعلمناہ صنعۃ لبوس لکم}اور ہم نے انہیں زرہ کی صنعت تمہارے (نفع) کے لیے سکھلادی تھی۔(سورۃ الانبیاء:۸۰)…اور {وألنا لہ الحدید}اور داؤد کے واسطے ہم نے لوہے کو نرم کردیا۔(سورۂ سبا:۱۰)سے صنعتِ زرہ سازی کے لیے ۔ اور {وأسلنا لہ عین القطر} اور ہم نے ان کے لیے تانبے کا چشمہ بہادیا۔(سورۂ سبا:۱۲)سے مختلف مصنوعات، مثلاً: برتن اور دیگر ضروری اشیاء کی صنعت کے لیے۔…{واصنع الفلک بأعیننا ووحینا}اور تم کشتی ہماری نگرانی میں اور ہمارے حکم سے تیار کرو۔(سورۂ ہود:۳۷)سے کشتی وجہاز سازی وغیرہ کی صنعت کی اباحت۔ اور {وہو الذي مرج البحرین ہذا عذب فرات وہذا ملح أجاج وجعل بینمہا برزخًا وحجرًا محجورًا}اور وہ وہی (اللہ) ہے جس نے دو دریاؤں کو ملایا ایک شیریں تسکین بخش ہے، اور ایک کھاری اور تلخ ہے ، اور