اسی طرح علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اپنی شہرۂ آفاق کتاب’’ فتح الباری شرح صحیح البخاری :۱/۱۸۶‘‘پر مذکورہ آیتِ شریفہ {یرفع اللّٰہ الذین اٰمنوا منکم ۔ الخ} کی تفسیر میں یوں رقم طراز ہیں کہ ’’ ایمان وعلم کے سببِ رفعِ درجات کا مطلب کثرتِ ثواب ہے ، جس کی وجہ سے درجات بلند ہوتے ہیں ، اور بلندیٔ درجات ، درجاتِ معنوی وحِسّی دونوں کو شامل ہے،یعنی اللہ رب العزت اہلِ ایمان وعلم کو دنیا میں بھی اونچے مقام ومرتبہ اور مقبولیتِ عامہ سے نوازتے ہیں، اور آخرت میں بھی جنت میں ان کا مقام بلند وبالا ہوگا، اور علم سے مراد ’’ علمِ شرعی‘‘ ہی ہے ، جس کا مدار علمِ تفسیر ، علمِ حدیث اور علمِ فقہ پر ہے۔‘‘--علاوہ ازیں ’’احکام القرآن للتھانوی‘‘ ۵/۲۳، پر ہے کہ علم سے علمِ شرعی ہی مرادہے ، نہ کہ علمِ دنیوی۔
اسی طرح صحیح مسلم اورسنن ابن ماجہ کی دونوں حدیثوں :’’ من سلک طریقًا یلتمس فیہ علمًا سہّل اللّٰہ لہ بہ طریقًا إلی الجنۃ ‘‘۔ (صحیح مسلم : ۲/۲۴۵)، اور ’’ طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم ‘‘ ۔(ابن ماجہ:ص/۲۰) میں علم سے مراد علمِ شرعی ہے ، نہ کہ علمِ دنیوی۔
قولہ : ’’ طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم ‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔ وقال البیضاوي : المراد من العلم ہنا ما لا مندوحۃ للعبد عن تعلمہ کمعرفۃ الصانع والعلم بوحدانیتہ ونبوۃ رسولہ وکیفیۃ الصلاۃ ، فإن تعلمہ فرض عین ۔ (زجاجہ علی ہامش ابن ماجہ :ص/۲۰)
قال الشیخ أبو حفص السہروردي : وقیل ہو طلب علم الحلال حیث کان أکل الحلال فریضۃ ، وقیل ہو علم البیع والشراء والنکاح