ہے۔{قل اللّٰہم مٰلک الملک تؤتي الملک من تشآء وتنزع الملک ممن تشآء وتعز من تشآء وتذل من تشآء بیدک الخیر إنک علی کل شيء قدیر}۔ آپ کہیے: اے سارے ملکوں کے مالک تو جسے چاہے حکومت دیدے ، اور تو جس سے چاہے حکومت چھین لے، تو جسے چاہے عزت دے، اور توجسے چاہے ذلت دے ، تیرے ہی ہاتھ میں بھلائی ہے ، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔ (سورۂ آل عمران:۲۶)، یعنی اللہ ہی فناکے گھاٹ اتارتا ہے،اور عزت وذلت بھی اسی کے ہاتھ میں ہے۔
(۵) نیز ارشادِ خداوندی ہے:{قل ہل یستوي الذین یعلمون والذین لا یعلمون إنما یتذکر أولوا الألباب}۔آپ کہیے کہ کیا علم والے اور بے علم کہیں برابر بھی ہوتے ہیں؟ نصیحت تو بس وہی حاصل کرتے ہیں جو عقل والے ہیں۔ (سورۃ الزمر:۹)
علامہ عبد الماجد دریابادی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: {الذین یعلمون والذین لا یعلمون} محاورۂ قرآنی میں’’ علم‘‘ سے مراد علم حقائق سے ہوتی ہے، اور بے علمی سے مراد اسی علم سے محرومی ہے ، علم سے قرآن مجید نے کہیں بھی وہ چیزیں مراد نہیں لی، جنہیں دنیا میں علوم وفنون کہا جاتا ہے۔ (تفسیر ماجدی مع ترجمہ قرآن)
(۶)ارشادِ باری تعالیٰ ہے :{یرفع اللّٰہ الذین اٰمنوا منکم والذین أوتوا العلم درجٰت}۔ اللہ تم میں ایمان والوں کے اور ان کے جنہیں علم عطا ہوا ہے درجے بلند کریگا۔
(سورۃ المجادلۃ :۱۱)
علامہ عبد الماجد دریابادی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’یہ وعدۂ درجاتِ عالی ، مجموعہ ٔ مخاطبین میں سے صرف اہلِ ایمان اور اہلِ علم کے لیے ، ان کے غایتِ خلوص وغایتِ خشیت کی بنا پر مخصوص رہ گیا۔‘‘ (تفسیر ماجدی مع ترجمہ قرآن)