صرف علما وفضلا تیار کرنے سے بات بننے والی نہیں ہے۔‘‘
۱؍…پہلا طبقہ اپنے نظر وفکر کے لیے ان دلائل کا سہارا لیتا ہے:
(۱) ارشادِ خداوندی ہے:{ولو أنہم اٰمنوا واتقوا لفتحنا علیہم برکات من السمآء والأرض} ۔ اور اگر بستیوں والے ایمان لے آئے ہوتے اور پرہیز گاری اختیار کی ہوتی ، تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتیں کھول دیتے۔
(سورۃ الأعراف :۹۶)
اس آیت سے پتہ چلا کہ مسلمانوں کو عصری علوم کی قطعاً ضرورت نہیں، کیوں کہ مسلمانوں کا روشن مستقبل، وجود وبقا، عزت وسرخ رُوئی اور فلاح وترقی ، ایمان ، علمِ شرعی، عملِ صالح ، تقویٰ وطہارت اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت پر موقوف ہے ، نہ کہ دنیوی علوم پر، بلکہ دنیوی علوم پر ’’علوم‘‘ کا اطلاق ہی غلط ہے۔
(۲) ارشادِ باری تعالی ہے:{وأنتم الأعلون إن کنتم مؤمنین}۔ تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن رہے۔ (سورۃ آل عمران :۱۳۹) یعنی ہماری عزت وسرخ رُوئی ، رفعت وبلندی ، فنا وبقا ایمانِ کامل کے ساتھ مشروط ہے۔
(۳) نیز ارشادِ خداوندی ہے:{وتلک القریٰ أہلکنٰہم لما ظلموا وجعلنا لمہلکہم موعِدًا}۔ اور یہ بستیاں وہ ہیں جنہیں ہم نے ہلاک کرڈالا، جب انہوں نے ظلم کیا اور ہم نے ان کی ہلاکت کے لیے ایک وقت متعین کیا تھا۔
(سورۃ الکہف :۵۹)
پتہ چلا کہ ہلاکت وبربادی ، ذلت ونکبت ، پستی وپس ماندگی کا سبب ظلم وزیادتی ہے، نہ کہ علومِ عصریہ سے عدمِ واقفیت۔
(۴) ارشادِ باری تعالیٰ ہے:{ہو یحیي ویمیت}۔وہی زندگی اور موت دیتا