بھی موجود ہو، ورنہ حرمت وممانعت کے ساتھ کسی بھی شی ٔ کی افادیت ونافعیت خواہ کتنی بھی ہو،معتبر نہیں ہوا کرتی ، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :{یسئلونک عن الخمر والمیسر قل فیہمآ إثم کبیر ومنافع للناس وإثمہمآ أکبر من نفعہما} ۔ (لوگ) آپ سے شراب اور قمار کی بابت دریافت کرتے ہیں، آپ کہہ دیجئے کہ ان میں بڑاگناہ ہے، اور لوگوں کے لیے فائدے بھی ہیں،اور ان کا گناہ اُن کے فائدوں سے کہیں بڑھا ہوا ہے ۔ (سورۃ البقرۃ :۲۱۹)
ایک ضروری وضاحت: میرے اس مقالہ کا پیغام مدرِک حضرات ہی سمجھ سکتے ہیں، مسبوق اور لاحق نہیں؛یعنی وہ افراد واشخاص جو از اول تا آخر بغور اسے سماعت کریں گے،اور جو شخصیات مقالہ کا کچھ حصہ گزر جانے کے بعد شریکِ اجلاس ہوں، یا ابتداء ً تو شریک رہے ہوں، مگر درمیان میں اپنی کسی ضرورت سے تشریف لے گئے ہوں، وہ مقالہ کے مدعا اور مقصود کو نہیں سمجھ سکتے،اس لیے درخواست ہے کہ تمام ہی حضرات بحیثیتِ مدرک مقالہ کے اختتام تک شریکِ مجلس رہیں۔فجزاکم اللہ أحسن الجزاء!
محترم سامعین! آج کل مسلم معاشرے میں دینی وعصری تعلیم کے سلسلے میں دو طرح کے نظریے پائے جاتے ہیں، اور یہ دونوں نظریے افراط وتفریط پر مبنی ہیں۔
(۱)… مسلم معاشرہ وسماج میں ایک طبقہ وہ ہے جو محض دینی تعلیم ہی کو روشن مستقبل کا ضامن سمجھتا ہے، قطعِ نظر عصری تعلیم کے ۔
(۲) …اور دوسرا طبقہ وہ ہے جو صرف عصری تعلیم ہی کو سب کچھ سمجھتا ہے، بلکہ بعضے نام نہاد ، دانشورانِ قوم تو یہ تک کہہ گئے کہ:’’ہمارا مستقبل اسی وقت روشن ہوگا، جب اس قوم میں ماہر ڈاکٹرس ، انجنیئرس، آفیسرس ، ججس اور سائنٹسٹ پیدا ہوں گے،