رہائش ونفقہ واجب نہیں ہے۔ (اسلام کے عائلی قوانین: ص/۱۲۲)
سرکاری عدالتیں مسلم مرد اور عورت کے حق میں نفقۂ عدت سے متعلق اِسی دفعہ کے مطابق فیصلے کی مکلف وپابند ہیں۔
۱۹۸۵ء میں ’’ شاہ بانو‘‘ مقدمہ کا سپریم کورٹ نے اِس دفعہ کے خلاف یہ فیصلہ دیا تھا کہ اُس کا شوہر عدت کے بعد بھی اُس کے نفقے وخرچے کو اُٹھاتا رہے گا، تواِس فیصلے کے مخالفِ شرع ہونے کی وجہ سے تمام ہندوستانی مسلمانوں نے اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی، جس کے نتیجے میں ۱۹۸۶ء میں پارلیمنٹ نے مسلم خواتین کے لیے ایک نیا قانون پاس کیا، جس سے سپریم کورٹ کا وہ فیصلہ کالعدم قرار پایا۔
اس کے باوجود آج پھر سرکاری عدالتیں نکاح،طلاق اور عدت وغیرہ سے متعلق ایسے فیصلے صادر کررہی ہیں، جو مسلم پرسنل لاء کے خلاف ہیں، جن میں سے ایک عدت کے بعد وجوبِ نفقہ کا فیصلہ بھی ہے، جسے عام زبان میں ’’ کھاؤٹی‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے- کہ عدت کا زمانہ گزر جانے کے بعد بھی طلاق دینے والے پر اِس اجنبیہ کا نفقہ وخرچہ لازم کیا جاتا ہے۔
نکاح،طلاق اور عدت وغیرہ سے متعلق سرکاری عدالتوں کے اِس طرح کے فیصلے جہاں ’’مسلم پرسنل لاء‘‘ میں مداخلت ہیں، وہیں مسلمانوں کو دستورِ ہند میں حاصل حق سے محروم کرنے اور یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی منصوبہ بند سازش کاحصہ ہے۔
مگر اِس میں ہم مسلمان بھی برابر کے قصوروار ہیں کہ اپنے اِس طرح کے نزاعات وجھگڑوں کو اپنے مذہبی اداروں (دار الافتاء، دار القضاء، شرعی پنچایت) سے حل کرنے کے بجائے سرکاری عدالتوں کا رخ کرتے ہیں ، اور اُنہیں مسلم پرسنل لاء میں مداخلت کے مواقع فراہم کرتے ہیں، جب کہ کسی سرکاری عدالت کے اس فیصلے سے کہ -طلاق دینے والے پر عورت کی عدت کے بعد بھی اُس کا نفقہ وخرچہ لازم ہے- عورت اور اُس کے سرپرستان کے لیے اس نفقہ کا لینا شرعاً درست نہیں ہے، لہٰذا جو شخص اللہ، رسول اور آخرت کی جزا وسزاپر