سِوِل کوڈ (Civil Code)، اور کریمنل کوڈ(Crimnal Code)
دوسری قسم میں جرائم کی سزائیں اور بعض انتظامی امور آتے ہیں، ظاہر ہے اس قسم کے قوانین تمام اہلِ ملک کے لیے یکساں ہیں، ان میں کسی نوعیت کی تفریق ، نسل ومذہب کی بنیاد پر از روئے دستور نہیں کی گئی۔پہلی قسم ’’سول کوڈ ‘‘ کے دائرہ میں وہ تمام قوانین آتے ہیں جن کا تعلق معاشرتی ، تمدنی اور معاملاتی امور سے ہے، اس قسم کے بیشتر قوانین بھی تمام اہلِ ملک کے لیے یکساں ہیں۔ البتہ سول کوڈ کے ایک حصہ (جسے پرسنل لاء’’Personal Law‘‘کہا جاتا ہے) میں ملک کی بعض اقلیتوں کو جن میں مسلمان بھی ہیں، اُن کے مذہب کے لحاظ سے کچھ خصوصی شعبوں میں الگ مذہبی قوانین پر عمل کرنے کا اختیار دیا گیا ہے، جسے ’’پرسنل لاء کی آزادی‘‘ کا نام دیا گیا ہے، اسی کے تحت مسلمانوں کو بھی دستورِ ہند میں یہ حق دیا گیا ہے کہ نکاح ، طلاق ، ایلاء ، ظہار، خلع ، مباراۃ، فسخِ نکاح، رضاعت، حضانت اور وقف سے متعلق مقدمات اگر سرکاری عدالتوں میں دائر کیے جاتے ہیں اور دونوں فریق مسلمان ہوں، تو سرکاری عدالتیں اسلامی شریعت کے مطابق ہی فیصلے کریں گی، انہی قوانین کے مجموعے کو ’’ مسلم پرسنل لاء‘‘ کہا جاتا ہے۔
مسلم پرسنل لاء میں قانون کی ایک دفعہ ’’ عدت‘‘ ہے؛
طلاق کے بعدآثارِ نکاح ختم ہوجانے کے لیے شریعت نے عورت کے واسطے جو مدت مقرر کی ہے، اُسے عدت کہتے ہیں، مطلقہ کی عدت، اگر اُسے حیض آتا ہے تو مکمل تین حیض ہے، اور اگر کم عمری یا زیادہ عمر کی وجہ سے حیض نہ آتا ہو تو تین قمری مہینے ہیں(فتاویٰ ہندیہ : ۱/۵۲۶ ،اسلام کے عائلی قوانین: ص/۲۱۲) ،عدت کی اِس مدت میں عورت طلاق دینے والے کی طرف سے رہائش ، نفقہ وخرچے کی حق دار ہے(ہدایہ:۲/۴۲۳)، عدت کے بعد وہ اجنبیہ ہے، اس لیے عدت کے بعد طلاق دینے والے کے ذمہ اُس کی