یقین رکھتا ہے اسے چاہیے کہ وہ اپنے معاشرتی ، تمدنی اور معاملاتی امورکو اپنے مذہبی اداروں سے ہی حل کرائے، اسی میں اس کی دنیوی فلاح اور اخروی نجات ہے۔
اللہ رب العزت کا ارشاد ہے: {فلا وربک لا یؤمنون حتی یحکموک فیما شجر بینہم ثم لا یجدوا فيٓ أنفسہم حرجًا مما قضیت ویسلموا تسلیما} ۔ ’’سو آپ کے پروردگار کی قسم ہے کہ یہ لوگ ایماندار نہ ہونگے جب تک یہ لوگ اس جھگڑے میں جو ان کے آپس میں ہو، آپ کو حکم نہ بنالیں، اور پھر جو فیصلہ آپ کردیں اس سے اپنے دلوں میں تنگی نہ پائیںاور اس کو پورا پورا تسلیم کرلیں۔‘‘ (سورۂ نساء: ۶۵)
اس آیت نے یہ صاف کردیا کہ رسول ا کی عدالت میںمقدمات محض لے آنا ہرگز ایمان کے لیے کافی نہیں، عقلی واعتقادی حیثیت سے اطمینان بھی رسول کے فیصلے پر ہونا چاہیے، ہاں اس کے بعد بھی کوئی طبعی تنگی باقی رہ جائے، تو غیر اختیاری ہونے کی بنا پر معاف ہوگی - حتی یحکموک فیما شجر بینہم - آپ کی حیاتِ مبارک میں تو آپ کا حَکَم بننا ظاہرہی تھا، بعد وفات آپ کی شریعت حَکَم بننے کے لیے کافی ہے، فقہاء نے اس آیت سے استنباط کیا ہے کہ جو کوئی اللہ یا اس کے رسول ا کے کسی حکم میں شک وشبہ کرے، یا ماننے سے انکار کرے وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہے ۔
وفي ہذہ الآیۃ دلالۃ علی أن من ردّ شیئا من أوامر اللّٰہ أو أوامر رسول اللّٰہ ﷺ فہو خارج من الإسلام ، سواء ردہ من جہۃ الشک فیہ ، أو من جہۃ ترک القبول والامتناع من التسلیم ۔
(أحکام القرآن للجصاص:۲/۲۶۸ ، تفسیر ماجدي