شریعت کے قوانین انسان کے تمام شعبوں ؛ عقائد، عبادات، معاملات، معاشرت اور اخلاق سب کو حاوی ہیں، شریعت کے قوانین میں وہ تقسیم نہیں جو آج کی بیشتر حکومتوں کے دستوروں میں پائی جاتی ہے، کہ ایک قسم کو پرسنل لاء(Personal Law)یعنی احوالِ شخصیہ کا نام دیا جاتا ہے، جو کسی انسان کی شخصی اور عائلی زندگی سے متعلق ہوتی ہے، اور اس کے متعلق یہ غلط تأثر دیا جاتا ہے کہ اس کے کرنے یا نہ کرنے کا اسے اختیار حاصل ہے، اسی تأثر کا یہ اثر ہے کہ آج جن لوگوں کو مسلم دانش ور کہا جاتا ہے، وہ یہ کہتے ہوئے ذرا نہیں جھجکتے کہ ’’مذہب میرا اپنا ذاتی معاملہ ہے‘‘، جس کا مطلب یہ ہے کہ میں چاہوں تواس پر عمل کروں ،اور چاہوں تو نہ کروں، حالاں کہ اُن کی یہ سمجھ غلط ہے، کیوں کہ ’’مسلمان‘‘ کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے تمام شعبوں میں شریعتِ اسلامی کا پابند ہے، مختار نہیں۔
دوسری قسم مشترک قانون(Common Law) کے نام سے معروف ہے، جو کسی ملک کے تمام باشندوں کے لیے یکساں ہوتے ہیں، اسلام اس تقسیم کا قائل نہیں، انسانی مسائل خواہ انفرادی ہوں یا اجتماعی ، تمدن وثقافت اور مال وزر سے اُن کا تعلق ہو یا اخلاقی بے راہ روی اور جرائم سے ، سب کاحل شریعتِ اسلامیہ نے یکساں طور پر پیش کیا ہے، اور ہر مسلمان پر ان تمام احکام کی پیروی ضروری قرار دی گئی ہے، اس کے قوانین میں شخصی اختیار کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
شریعت کے ان قوانین میں ایسی گہرائی اور لچک ہے کہ اُن کی روشنی میں ہر زمانے ، حتی کہ آج کے اس ترقی پذیر دور میں پیش آمدہ نت نئے مسائل کا حل پیش کیا جاسکتا ہے، اور کیا بھی جارہا ہے ، جیسا کہ دورِ حاضر کی اسلامک فقہ اکیڈمیوں اور مجلسوں کے فیصلے اس پر شاہد ہیں۔
ہمارے اس وطنِ عزیز میں رائج قوانین کی دو اہم قسمیں ہیں: