کیوں کہ انسان خلقۃً وفطرۃً کمزور ہے، اس کا علاج خود خالق کائنات نے فرمایا: {یرید اللّٰہ أن یخفف عنکم وخلق الإنسان ضعیفا} ۔ اللہ کو منظور ہے کہ تمہارے ساتھ تخفیف برتے ، اور انسان تو کمزور پیدا ہی کیا گیا ہے ۔ (سورۃ النساء : ۲۸)
کبھی وہ ایسے حالات وعوارض کا شکار ہوتا ہے، جو اس کے لیے احکام اسلام میں سہولتوں او رآسانیوں کے داعی ہوتے ہیں ، شریعت نے اس کا پورا پورا خیال فرمایا ، اور ان حالات وعوارض میں اسے احکام عزیمت پر عمل کا مکلف نہ بناکر احکام رخص پرعمل پیرا ہونے کی اجازت دی ۔مثلا:
(۱) حالت سفر میں انسان مشقتوں او ردشواریوںسے دوچار ہوتا ہے ،اور اس کی یہ حالت احکام میں تخفیف کی داعی ہوتی ہے ، تو شارع نے خود اعلان کردیا:{واذا ضربتم في الأرض فلیس علیکم جناح أن تقصروا من الصلوۃ} ۔ اور جب تم زمین مین سفر کرو تو تم پر اس باب میں کوئی مضائقہ نہیں کہ نماز میں کمی کردیا کرو۔ (سورۃ النساء :۱۰۱)
مسافر کے لیے چار رکعتوں والی نمازیں دو رکعتیں پڑھنے کی رخصت دی گئی، جماعت کی حاضری او رقربانی کا جوب اس سے ساقط کردیا گیا، روزے کے افطار کی اجازت دی گئی غیرہ۔
(۲)انسان بھوک اور پیاس سے اس قدر دوچار ہوکہ جان جانے کا اندیشہ ہے، اور کوئی حلال شئے سوائے حرام کھانے او رپینے کے موجود نہ ہو، اس کی یہ حالت اس بات کی متقاضی تھی کہ اس کے لیے اکلِ میتہ اور شربِ خمر کی حرمت ختم ہو،شریعت نے بلا کسی درخواست وطلب کے اعلان کردیا{انما حرم علیکم المیتۃ والدم ولحم