تم اِن شاء اللہ مجھ کو خوش معاملہ پاؤ نگے ، موسی نے کہا تو یہ بات میرے اور آپ کے درمیان ہوگئی ، میں ان دونوں میں سے جو مدت پوری کردوں مجھ پر کوئی جبر نہ ہوگا ، اور ہم جو کچھ کہہ سن رہے ہیں اللہ اس کا گواہ ہے ۔ (سورۃ القصص : ۲۶ ، ۲۷ ، ۲۸)
مذکورہ آیات عقد اجارہ کے جواز پر دال ہیں ، کیوں کہ فقہ اسلامی کا اصول ہے کہ جب اللہ رب العزت ہمارے سامنے ماقبل کی شریعتوں کی کوئی بات بلا نسخ بیان فرماتے ہیں، تو وہ ہماری لیے مستقل ازسرنو شریعت بن جاتی ہے ۔
(۳) مردوعورت میں ایک دوسرے کی طرف میلان ورغبت ، خواہش وشہوت ، ایک طبعی او رفطری امر ہے ،دونوں کا ایک دوسرے کے لیے حلال ہونا اپنی خواہش وتسکین کے لیے ضروری ہے ،جہاں یہ حلت میاں بیوی کے جذبات کے ـلیے سامانِ تسکین ہے وہیں کثرتِ نسل، جنسِ انسانی کی حفاظت اور منشائے خداوندی تاقیام قیامت دنیا کی آبادی کا اہم ذریعہ ہے ،شریعت نے اسی ضرورت کے پیش نظر نکاح کو حلال قرار دیا ، ارشاد باری تعالیٰ ہے: {فانکحوا ما طاب لکم من النسآء مثنی وثلٰث وربٰع} ۔ تو جو عورتیں تمہیں پسند ہوں ان سے نکاح کرلودو دو سے خواہ تین تین سے خواہ چار چار سے ۔ (سورۃ النساء :۳)
ان تینوں مثالوں سے واضح ہوتاہے، کہ لوگوں کی ضرورتیں اور حاجتیں ہی عقود ومعاملات کے جائز ہونے کی بنیاد ہے، چنانچہ فقہ اسلامی کا یہ قاعدہ ’’ حاجۃ الناس أصل في شرع العقود ‘‘۔لوگوں کی حاجت ومعاملات کے جواز کی بنیاد ہے۔ (المسبوط :۱۵/۷۵) بھی اسی کا مؤید ہے ۔
اب آئیے بعض ایسے قوانین کی طرف جو انسانی سہولتوں او رآسانیوں پر مبنی ہیں،