اوریہ بھی حقیقت ہے کہ ہر فردوبشر میں نہ تو تمام صلاحیتیں اور خوبیاں ہوتی ہیں اورنہ وہ تمام چیزوں میں کامالک ہوتا ہے، جب کہ دوسروں کی صلاحیتوں اور اس کی ملک میں موجود چیزوںکی منفعتوں کا وہ محتاج ہوتا ہے ، کیوں کہ اللہ رب العزت نے کسی کو مال ودولت سے نوازا ہے تو کسی کو علم وہنر عطا کیا ہے ،اور دونوں کی ضرورتیں ایک دوسرے سے وابستہ کردیں ، جہاں صاحب مال ، صاحب علم وہنر کی صلاحیتوں کا محتاج ہوتاہے، وہیں صاحب مال انتفاع بملک الغیر (دوسرے کی مملوک چیز سے فائدہ اٹھانا) اور صاحب شئے، انتفاع بالاجرۃ (مزدوری کی رقم سے فائدہ اٹھانا)کا محتاج ہوتاہے، اگر عقد اجارہ جائز نہ ہوتا تو ہردو فریق کی ضرورت کیسے پوری ہوسکتی تھی ، اس لیے شریعت نے ان دونوں کی ضرورت وحاجت کا خیال فرماکر عقد اجارہ کو جائز قرار دیا، ارشادِ ربانی ہے:
{قالت إحداھما یٰٓأبت اسـتأجرہ ان خیر من استأجرت القوي الأمین قال إنيٓ ارید ان انکحک احدی ابنتي ھاتین علٰٓی أن تأجرني ثماني حجج فان اتممت عشرا فمن عندک ومآ ارید ان اشق علیک ستجدنيٓ إن شآء اللّٰہ من الصّٰلحین قال ذلک بیني وبینک ایما الأجلین قضیت فلا عدوان علی واللّٰہ علی ما نقول وکیل} ۔ پھر ان دومیں سے ایک لڑکی بولی ، اے ابا !ان کو نوکر رکھ لیجئے کیونکہ اچھا نوکر وہی ہے ، جو قوت دار ہو ،امانت دار ہو ، وہ بولے میں چاہتا ہوںکہ میں اپنی ان دو بیٹیوں میں سے ایک تمہارے نکاح میں دیدوں اس شرط پر کہ تم آٹھ سال میری نوکری کرو، اور اگر تم دس سال پورے کردوں تو یہ تمہاری طرف سے احسان ہے ، اور میں تم پر کوئی سختی نہیں چاہتا ،