ہے، اور طہر کے معنی میں بھی، اور دونوں ایک دوسرے کی بالکل ضد ہیں، اب ایک مجتہد (حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ) نے مختلف دلائل ووجوہاتِ ترجیح کی بنیاد پر معنی ٔ حیض کو ترجیح دی، اور یہ مسئلہ بیان فرمایا کہ مطلقہ عورت کی عدت تین حیض ہیں۔ دوسرے مجتہد (حضرت امام شافعی رحمہ اللہ) نے معنی ٔ طہر کو مختلف دلائل ووجوہاتِ ترجیح کی بنیاد پر ترجیح دی، اور یہ مسئلہ بیان فرمایا کہ مطلقہ عورت کی عدت تین طہر ہیں۔
لہٰذا ان دونوں آراء میں سے کسی بھی رائے کو غلط نہیں کہا جاسکتا، بلکہ یہاں بھی ہر دو مجتہد اور ان کے مقلدین عامل بالنص ہی کہلائیں گے۔
۴- بعضے احکام وہ ہیں جو صراحۃً نصوص (قرآن وحدیث) میں مذکور نہیں ہیں، بلکہ ان مسائل کو مجتہدین فقہائے کرام نے قیاس واجتہاد کے ذریعہ بیان فرمایا ہے، اور یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہر شخص کی فکر وسوچ یکساں نہیں ہوتی، اس لیے ان اجتہادی مسائل میں ائمہ مجتہدین کا اختلاف فطری امر ہے، اور ہر مجتہد کی رائے میں صواب وصحیح اور خطا کا احتمال ہے، اسی طرح دونوں مجتہدوں کی رائے وزن میں برابر ہیں، اور جب یہ بات ہے تو یہاں بھی ایک دوسرے کی تغلیط کی کوئی گنجایش نہیں، بلکہ ہر مجتہد اپنے اس اجتہاد میں اجر وثواب کا مستحق ہے، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’ إذا حکم الحاکم فاجتہد ثم أصاب فلہ أجران ، وإذا حکم فاجتہد ثم أخطأ فلہ أجر ‘‘ ۔ (صحیح بخاري :ص/۱۲۹۷، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ ، رقم :۷۳۵۲ ، احیاء التراث العربي بیروت)
حدیث پاک میں خطا وصواب کی جو بات کہی گئی اس کا تعلق علمِ خداوندی سے ہے، کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد وحی کا سلسلہ ختم ہوچکا، جس کی وجہ سے اب کوئی انسان اس صواب وخطا پر مطلع نہیں ہوسکتا، تو بھلا