تیسرے مسئلہ (مسِ ذَکر)میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ پہلی روایت (طلق ابن علی) کو ترجیح دیتے ہوئے مسِ ذَکر سے عدمِ نقضِ وضو کے قائل ہوئے۔ اور امام شافعی رحمہ اللہ دوسری روایت (بسرہ بنت صفوان) کو ترجیح دیتے ہوئے مسِ ذَکر سے نقضِ وضو کے قائل ہوئے۔
اس طرح کے مسائل میں چوں کہ دونوں طرح کے نصوص پائے جاتے ہیں، اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ دونوں مجتہدین ائمہ کے اقوال نصوصِ شرعیہ کے مطابق ہیں، کوئی مجتہد دوسرے مجتہد کے قول کو غلط نہیں کہہ سکتا، ہر مجتہد اور اس کے مقلدین نصِ شرعی پر عامل ہیں، اور جس نص پر بھی عمل کیا جائے وہ صواب وصحیح ہے، اور جب دونوں صواب وصحیح ہیں ، تو مسلکی جھگڑا چہ معنی دارد؟
اس سے معلوم ہوا کہ مسلکی جھگڑوں کو ہوّا دینا اور اس کی بنا پر آپس میں دست وگریباں ہونا، اس کے پسِ پشت کوئی جذبۂ خیر نہیں ہوتا، بلکہ اپنے ذاتی مفادات اور شخصی اثر ورُسوخ کا تحفُّظ مقصود ہوتا ہے، جو دین نہیں ، مُنافی ٔدین ہے۔
۳- بعضے احکام وہ ہیں جو ایسے نصوص (قرآن وحدیث) سے ثابت ہیں، جو متعارض ومختلف تو نہیں ہیں، مگر ان نصوص نے ان احکام کو ایسے الفاظ سے بیان کیا جو مختلف معانی کا احتمال رکھتے ہیں، اور وہ معانی کبھی اَضداد کے قبیل سے ہوتے ہیں، تو مجتہد ان معانی میں سے کسی ایک معنی کو ترجیح دے کر مسئلہ بیان کرتا ہے، جیسے مطلقہ عورت کی عدت کا مسئلہ: {والمطلّقٰت یتربّصن بأنفسہن ثلٰثۃ قروء}۔’’ اور طلاق دی ہوئیں عورتیں اپنے آپ کو تین قروء روکے رکھیں۔‘‘
اب اس نص میں لفظ ’’ قروء‘‘ کے مختلف معانی ہیں کہ وہ حیض کے معنی میں بھی آتا