فقال : یا رسول اللّٰہ ! ما تری في رجل مسّ ذکرہ في الصلاۃ ؟ قال : ’’وہل ہو إلا مضعۃ منک ، أو : بضعۃ منک ‘‘ ۔ ’’ حضرت طلق ابن علی کہتے ہیں کہ ہم ایک و فد کے ساتھ نکلے اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاسـ پہنچے، ہم نے آپ سے بیعت کی اور آپ کے ساتھ نما ز پڑ ھی ، نماز سے فا ر غ ہو نے کے بعد ایک شخص آ یا گو یا کہ وہ دیہا تی ہو ، اس نے پو چھا یا ر سو ل اللہ ! آپ کیا حکم دیتے ہیں اس شخص کے بارے میں جس نے نماز میں اپنے ذکر کو چھووا ہو؟ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ وہ بھی تیرے جسم کا ایک ٹکڑا ہے۔(یعنی جیسے دوسرے اعضا کے چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا ، اسی طرح اس کو چھونے سے بھی وضو نہیں ٹوٹتا)۔
(سنن النسائي : ۱/۲۱ ، شرح معاني الآثار :۱/۶۲)
(۲) عن بسرۃ بنت صفوان أنہا سمعت رسول اللّٰہ ﷺ یقول : ’’إذا مسّ أحدکم ذکرہ فلیتوضّأ ‘‘ ۔’’ حضرت بسرہ بنت صفوان سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا : جب تم میں سے کوئی اپنے ذَکر کو چھوئے تو وہ وضو کرلے۔‘‘ (سنن النسائي :۱/۲۰، شرح معاني الآثار :۱/۵۷)
اب اِن روایتوں میں چوں کہ تعارُض واختلاف پایا جاتا ہے، اس لیے:
پہلے مسئلہ (رفعِ دین)میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ پہلی روایت (عبد اللہ ابن مسعود) کو ترجیح دیتے ہوئے عدمِ رفعِ یدین کے قائل ہوئے۔ اور امام شافعی رحمہ اللہ دوسری روایت (حضرت سالم) کو ترجیح دیتے ہوئے رفعِ یدین کے قائل ہوئے۔
دوسرے مسئلہ(آمین بالجہر) میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ پہلی روایت (وائل ابن حجر) کو ترجیح دیتے ہوئے آمین بالسرّ کے قائل ہوئے۔ او رامام شافعی رحمہ اللہ دوسری روایت (ابوہریرہ) کو ترجیح دیتے ہوئے آمین بالجہر کے قائل ہوئے۔