جواب: ۸- قبل از تقسیمِ میراث اس کے ہر جزمیں ہر وارث کا حصہ ہوتا ہے، لہٰذا دیگر ورثاء کی اجازت کے بغیر کسی وارث کے لیے ترکہ کے کسی حصہ کو لے کر اس سے کاروبار کرنا شرعاً جائز ودرست نہیں ہے(۲۴)، البتہ اگر دیگر ورثاء اس کی اجازت دیتے ہیں، تو گویا وہ اس وارث کو اپنے اپنے حصۂ اِرث سے انتفاع کی اجازت دے رہے ہیں(۲۵)، اس صورت میں وراثِ مذکور کا یہ کاروبار درست ہوگا، مگر دیگر ورثاء کے حصوں کے بقدر رقم اُس کے ذمہ قرض ہوگی۔(۲۶)
سوال: ۹- جس کاروبار میں ابتداء ًمعاملے کی نوعیت متعین نہیں ہوتی، اُس میں نوعیت کی تعیین کن بنیادوں پر کی جائے گی؟ کیا اس سلسلے میں قرائن اور عرف کو بنیاد بنایا جاسکتا ہے؟
جواب: ۹- جس کاروبار میں ابتداء ً معاملے کی نوعیت (تعاون، شرکت، قرض) متعین نہ ہو، وہاں بر بنائے عدمِ صراحت، دلالت یعنی قرائن وعرف کو بنیاد بنایا جاسکتا ہے، جیسا کہ فقہ کا قاعدہ ہے: ’’ العرف في الشرع لہ اعتبار ۔ لذا علیہ الحکم قد یُدار ‘‘ ۔(۲۷) اور ’’ الأصل أن للحالۃ من الدلالۃ کما للمقالۃ ‘‘ ۔(۲۸)
سوال: ۱۰- باپ اور بیٹوں کے مابین مشترکہ کاروبار کے حوالے سے ایک ایسا واضح لائحۂ عمل تجویز فرمائیں جو شریعت کے اصول وضابطے کے مطابق ہو، نیز اس زمانے کے حالات میں اُس کا نفاذ آسان ہو، تاکہ اُن اصول اور ہدایات کی روشنی میں لوگوں کے لیے اپنے معاملات طے کرنا آسان ہو۔
جواب: ۱۰- ’’مشترکہ خاندان میں معاملاتی تنازعات اور اُن کا حل‘‘ مسلم معاشرے میں آپس کے جھگڑوں اور تنازعات کا جو سیلاب اُمڈا ہوا ہے، ان کی تہہ میں اگر دیکھا جائے، تو وہی ؛ زر، اور زمین کے معروف اسباب کار فرما نظر آتے ہیں، روپیہ