کے حق دار نہیں، ورنہ وہ اپنے واجب حق کے حق دار ہوں گے، اور باپ کے انتقال پر یہ تمام کاروبار باپ ہی کی ملک شمار ہوں گے، اور وہ اس کے تمام ورثاء کے مابین حسبِ حصصِ شرعیہ تقسیم ہوں گے۔(۲۲)
سوال: ۷- والد کے انتقال کے بعد کبھی ایسا ہوتا ہے کہ والد کا ترکہ تقسیم نہیں کیا جاتا، مرحوم باپ کے بیٹوں کا رہن سہن ایک ساتھ رہتا ہے، والد کے پرانے کاروبار کو بعض بیٹے سنبھال لیتے ہیں، اور اُس سے حاصل شدہ آمدنی سے پورے گھر کا خرچ چلتا ہے، ایسی صورت میں انتقال کے بعد کاروبار میں جو اضافہ ہوتا ہے، کیا وہ سب ورثاء کے مابین اُن کے حصوں کے مطابق تقسیم کیا جائے گا؟ یا اضافہ شدہ کاروبار کے صرف وہی بیٹے مالک ہوں گے، جنہوں نے والد کے انتقال کے بعد کاروبار سنبھالا ہے، اگر اضافہ شدہ کاروبار او راُس سے حاصل شدہ جائداد وغیرہ کا صرف کاروبار کرنے والے بیٹوں کو مالک قرار دیا جائے، تو اس پر بہنوں کو اعتراض ہوتا ہے، اور اگر سب کو برابر کا مالک قرار دیا جائے،تو کاروبار کرنے والے بیٹوں کی محنت ضائع ہوتی ہے؟
جواب: ۷- والد کے انتقال کے بعد بیٹے باپ کے کاروبار کو بڑھاتے رہیں، اور ترکہ تقسیم نہیں کیا گیا، اور کاروبار میں نفع بھی ہوتا رہا، تو اصل کاروبار کے ساتھ نفع بھی ترکہ میں شامل ہوگا، اور باپ کے انتقال کے بعد تمام ورثاء کے مابین حسبِ حصصِ شرعیہ تقسیم ہوگا۔(۲۳)
سوال:۸- کبھی ترکے کی تقسیم سے پہلے بعض بیٹے والد کی متروکہ رقم لے کر اپنا کوئی کاروبار شروع کردیتے ہیں، اس رقم سے ہونے والے کاروبار کی شرعاً کیا حیثیت ہوگی؟ کیا رقم کی حیثیت کی تعیین میں ورثاء کی رضامندی وعدمِ رضامندی کا کوئی فرق ہوگا؟