کی وجہ سے ہر شریک اپنے رأس المال (سرمایہ) کے تناسب سے منافع کا حق دار ہوگا(۱۶)، لیکن اثاثوں کے قابلِ تقسیم ہونے کے باوجود اگر باپ نے اُنہیں تقسیم کرکے اپنے بیٹوں کو ہبہ مع القبض نہیں کیا، تو اس صورت میں ہبہ تام نہیں ہوگا، اور نہ ہی شرکت کی صورت متحقق ہوگی، اور کمپنی کے جمیع اثاثے ومنافع باپ ہی کی ملک قرار پائیں گے، اور اس کے انتقال پر اس کے تمام ورثاء کے مابین حسبِ حصصِ شرعیہ تقسیم ہوں گے۔(۱۷)
(۲) اور اگر کمپنی کے اثاثے ناقابلِ تقسیم ہوں، اور باپ یہ غیر مقسوم اثاثے اپنے تمام بیٹوں کو بحصۂ متعینہ ہبہ کردے، تو ہبہ تام ہوگا(۱۸)، اور اس صورت میں بھی منافع کا فیصد متعین نہ ہونے کی وجہ سے ہر شریک اپنے رأس المال (سرمایہ) کے تناسب سے منافع کا حق دار ہوگا۔(۱۹)
سوال: ۵- کبھی مشترکہ کاروبار کی یہ شکل ہوتی ہے کہ بیٹے اپنے سرمایے سے ایک کمپنی قائم کرتے ہیں، اُس میں والد کا کوئی سرمایہ نہیں لگا ہوتا، لیکن بیٹے احترام میں کمپنی والد ہی کے نام سے قائم کرتے ہیں، کاغذات میں کمپنی کا مالک والد ہی کو قرار دیا جاتا ہے، اس طرح کی قائم کردہ کمپنی میں شرعاً باپ کی کیا حیثیت ہوگی؟ باپ کے انتقال کے بعد اِس طرح کے معاملے میں بھائیوں اور بہنوں میں اختلافات کثرت سے پیش آتے ہیں، بہنوں کا یہ دعویٰ ہوتا ہے کہ والد محترم یا تو کاروبار کے اصل مالک تھے، یا کاروبار میں شریک تھے، لہٰذا کاروبار میں اُن کے حصے میں سے ہم کو حق ملے گا۔ بھائیوں کا یہ کہنا ہوتا ہے کہ کاروبار کے اصل مالک ہم ہی تھے، ہم نے احتراماً کمپنی میں والد صاحب کا نام