ہوگا، جو اس کے تمام ورثاء کے مابین حسبِ حصصِ شرعیہ تقسیم ہوگا۔(۱۴)
سوال: ۴- باپ اور بیٹوں کے درمیان کاروبار کی یہ شکل بھی سامنے آتی ہے کہ باپ اپنے بیٹوں کو اُن کے سرمایہ لگائے بغیر، مثلاً: اپنی کمپنی میں پرسنٹ کے حساب سے شریک بنالیتا ہے، اور عموماً اس طرح کے معاملے کے وقت ملکیت اور منافع میں شرکت کی کوئی صراحت نہیں ہوتی، ایسی صورت میں کیا شریعت کی رُو سے بیٹوں کو باپ کے ساتھ اصل کمپنی کی ملکیت میں شریک قرار دیا جائے گا؟ یا صرف منافع میں شریک مانا جائے گا؟ پھر ملکیت میں شریک قرار دیا جائے، یا محض منافع میں شریک سمجھا جائے، دونوں صورتوں میں فقہ کی رُو سے اِس کی کیا توجیہ کی جائے گی؟ کیا یہ سمجھا جائے گا کہ باپ نے گویا بیٹوں کے درمیان کمپنی کی ملکیت پرسنٹ کے حساب سے تقسیم کرکے، ہر ایک کو اُس کے حصے کا مالک بنادیا، اور اگر معاملے کے وقت ملکیت یا منافع میں شرکت کی صراحت ہوجائے، تو اُس وقت کیا حکم ہوگا؟ اِس جز کے جواب میں اس بات کی ضرور وضاحت فرمائیں کہ غیر منقسم اشیاء کے ہبہ میں قبضے کا تحقق ضروری ہے یا نہیں؟ اگر ضروری ہے، تو اس میں قبضہ کے تحقق کی صورت کیا ہے؟
جواب:۴- باپ کا اپنے بیٹوں کو اُن کے سرمایہ لگائے بغیر اپنی کمپنی میں شریک بنالینا دو حال سے خالی نہیں:
(۱) کمپنی کے اثاثے قابلِ تقسیم ہوں گے ؛ (۲)یا قابلِ تقسیم نہیں ہوں گے؛
(۱) اگر کمپنی کے اثاثے قابلِ تقسیم ہوں، اور باپ اِن اثاثوں کو تقسیم کرکے اپنے بیٹوں کو ہبہ مع القبض کرادے، تو اس صورت میں ہبہ تام ہوگا(۱۵)، اور بیٹے اپنے اپنے حصہ کے مالک بن کر کمپنی میں شریک قرار پائیں گے، اور منافع کا فیصد متعین نہ ہونے