تو پھر وہ بینہ سے ثابت کردہ حصۂ منافع میں متعینہ فی صد کا حق دار ہوگا(۱۱)، اور والد نے اپنی حیاتی میں جو کچھ اسے دیا اُس کا حساب کرکے ، اُسے اس کے حصۂ منافع میں سے منہا کیا جائے گا، اور بقیہ مال مرحوم کے تمام پس ماندگان میں حسبِ حصصِ شرعیہ تقسیم کیا جائے گا، جس میں مذکورہ بیٹا بھی شریک ہوگا۔(۱۲)
سوال: ۳- کبھی کاروبار کی یہ نوعیت سامنے آتی ہے کہ باپ کے عیال میں رہتے ہوئے باپ کی پونجی اور سرمایے سے بیٹے کوئی کام شروع کرتے ہیں، باپ کاروبار کی ملکیت اور اُس کے منافع میں اپنے کو اور سب بیٹوں کو برابر کا شریک قرار دیتا ہے، لیکن باپ عملی طور پر کاروبار میں شریک نہیں ہوتا، اور بیٹوں میں بعض زیادہ محنت کرتے ہیں، بعض کم اور بعض بالکل نہیں، ایسی صورت میں اِس کاروبار میں بیٹوں کی باہم کیا حیثیت ہوگی؟ کیا سارے بیٹے کاروبار کی ملکیت اور اُس کے منافع میں برابر کے شریک ہوں گے؟ یا بعض بیٹوں کے زیادہ محنت کرنے کی وجہ سے اُن کا زیادہ حصہ ہوگا؟
جواب: ۳- اگر باپ نے اپنے بیٹوں کو کاروبار کے لیے سرمایہ دیتے وقت یہ وضاحت کی ہو کہ اس کا اتنا حصہ میں آپ لوگوں کو ہبہ کررہا ہوں، یا دے رہا ہوں، اور اس کا مالک بنا رہا ہوں، اور اتنا سرمایہ میری ملک ہے، اور میں ہی اُس کا مالک ہوں، تو ایسی صورت میں باپ اور تمام بیٹے اس کاروبار میں شریک سمجھے جائیں گے، اور اپنے اپنے رأس المال (سرمایہ) کے تناسب سے اس کاروبار کے منافع میں حصہ دار بھی ہوں گے(۱۳)، خواہ باپ عملی طور پر کاروبار میں شریک نہ ہوا ہو، اور بیٹوں میں سے بعض نے زیادہ محنت کی ہو، اور بعض نے کم، اور بعض نے بالکل ہی محنت نہ کی ہو۔اور اس صورت میں باپ کے انتقال کے بعدکاروبار میں باپ کا حصہ، میراث