دے دیتا ہے، بیٹا اس کو لے لیتا ہے، لیکن باپ کے انتقال کے بعد سرمایہ لگانے والا بیٹا کاروبار میں اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے، دیگر ورثاء اس کی مخالفت کرتے ہیں، ایسی صورت میں کیا بیٹے کو سرمایہ لگانے کی وجہ سے کاروبار کی ملکیت میں شریک سمجھا جائے گا؟ یا یہ اُس کی طرف سے تبرُّع ہوگا؟ اگر بیٹے کو شریک قرار دیا جائے گا، تو اُس کا تناسب کیا ہوگا؟ فقہی کتابوں میں مذکور ’’شرکت‘‘ کی تفصیلات کی روشنی میں اس کا حکم واضح فرمائیں۔ واضح رہے کہ اِس صورت میں بیٹا باپ ہی کے عیال میں رہتا ہے۔
جواب: ۲- یہ صورت تین حال سے خالی نہیں، یا تو بیٹے نے اپنے والدین کو سرمایہ بطورِ تعاون دیا ہو، اور والد ہی کے ساتھ رہائش پذیر ہو، یا پھر سرمایہ لگاتے وقت شرکت کا معاہدہ کیا ہو، یا پھر سرمایہ بطورِ قرض باپ کو دیا ہو۔
حالتِ اُولیٰ میں تمام سرمایہ والد کی ملکیت شمار ہوگا، اور لڑکا محض والد کا معاون سمجھا جائے گا۔(۶)
حالتِ ثانیہ میں لڑکا باپ کا کاروباری شریک سمجھا جائے گا، اور سرمایہ کی مقدار کے تناسُب سے نفع کا حق دار ہوگا۔(۷)
حالتِ ثالثہ میں بطورِ قرض جو رقم لڑکے نے باپ کو کاروبار کے لیے دی تھی، وہ اتنی رقم کا حق دار ہوگا۔(۸)
مذکورہ سوال میں بیٹے نے بلا کسی معاہدے وتعیین کے کاروبار میں اپنا سرمایہ لگایا، تو بظاہر وہ والد کے کاروبار میں اس کا معاون ہی سمجھا جائے گا(۹)، البتہ اگر وہ بینہ کے ذریعے والد کے ساتھ اپنی اصل شرکت اور حصۂ منافع میں فی صد کو ثابت کردے(۱۰)،