بیٹے کے کاروبار میں اپنا سرمایہ لگانے اور باپ کے عیال میں رہنے کی وجہ سے اُس کو باپ کا معاون قرار دیا جائے گا؟ اور باپ کے انتقال کے بعد ساراکاروبار اُس سے حاصل شدہ آمدنی ورثاء کے مابین حسبِ حصصِ شرعیہ تقسیم کی جائے گی؟ واضح رہے کہ اس سلسلے میں علامہ شامی رحمہ اللہ کی یہ عبارت بہت اہمیت کی حامل ہے:’’ الأب وابنہ یکتسبان في صنعۃ واحدۃ ، ولم یکن لہما شيء ، فالکسب کلہ للأب إن کان الإبن في عیالہ لکونہ معینًا لہ ‘‘-لیکن اِس عبارت میں اِس بات کی تنقیح کی ضرورت ہے کہ بیٹے کا باپ کے عیال میں رہنے کا کیا مطلب ہے؟ کیا عیال کا مفہوم ہر علاقے کے طرزِ معیشت کو سامنے رکھ کر متعین کیا جائے گا؟ یا اس کا کوئی ایک ہی خاص مفہوم ہے، جس کی روشنی میں سارے علاقے والوں کے لے ایک ہی حکم ہوگا؟
جواب:۱- بیٹا باپ کا معاون شمار ہوگا(۱)، مالک نہیں، پورا کاروبار باپ ہی کی ملک ہوگا(۲)، اور اس کے انتقال کے بعد یہ پورا کاروبار اور اس سے حاصل شدہ آمدنی اُس کے تمام ورثاء کے مابین حسبِ حصصِ شرعیہ تقسیم کی جائے گی۔(۳)-علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ کی عبات- إن کان الإبن في عیالہ الخ(۴)-میں ’’ابن‘‘ کا باپ کے عیال میں ہونے کا مطلب یہی ہے کہ باپ اس کے تمام اخراجات کا متحمل ہو، اور عیال کا یہی مفہوم ہر علاقے میں معتبر ہے۔(۵)
سوال: ۲- بسا اوقات باپ اور بیٹوں کے درمیان کاروبار کی یہ نوعیت ہوتی ہے کہ بیٹا محنت کرنے کے ساتھ ساتھ بلا کسی معاہدے کے کاروبار میں اپنا کچھ سرمایہ بھی لگاتا ہے، اور باہم نفع کا کوئی فی صد متعین نہیں ہوتا، باپ اپنی زندگی میں بیٹے کو جو بھی