کے پاس ایک ہی طریقۂ علاج باقی بچا ہے، وہ یہ کہ مریض کو وقفہ وقفہ سے وہی شراب یا نشہ آور چیز استعمال کرنے کی تجویز کرے، جس کا وہ عادی ہے، لیکن مریض کے علم میں لائے بغیر اس میں کوئی ایسی دوا شامل کرادے، جو شراب یا نشہ آور چیز کے استعمال کے بعد وہ مریض کافی دیر تک متلی یا قے وغیرہ کی شکایت میں گرفتار رہے، اس طرح مریض کے ذہن میں یہ بات بیٹھ جائے گی کہ میں شراب یا نشہ آور چیز کا استعمال کروں گا، تو متلی اور قے میں گرفتار ہوجاؤں گا، یہ طریقۂ علاج بہت سے مریضوں پر کار آمد ثابت ہوتا ہے، کیامختلف نفسیاتی طریقۂ علاج کے ناکام ہونے کے بعد ایک مسلمان ڈاکٹر اپنے مریض پر یہ طریقۂ علاج استعمال کرسکتا ہے؟ حالانکہ اس میں مریض کو ایک ناجائز اور حرام چیز کے استعمال کا مشورہ دیا جارہا ہے۔
جواب : ۷- اس صورت کا تعلق اِصلاح سے ہے، اور کوئی بھی آدمی کسی کی اصلاح کا اس قدر مکلف نہیں ہے، کہ اسے حرام چیز کے استعمال کا مشورہ دے۔ ’’درء المفاسد أولی من جلب المصالح ‘‘ ۔ (الأشباہ والنظائر)
سوال: ۸- بہت سے جرائم پیشہ افراد ماہر نفسیات ڈاکٹر کے زیر علاج ہوتے ہیں، یہ لوگ اپنے جرائم پیشہ ہونے کا حد درجہ اِخفا کرتے ہیں، کہ کسی کو اس کی خبر نہ ہوسکے، مثلاً ایک شخص جاسوسی کرتا ہے، اور لوگوں کے راز مختلف ذرائع سے حاصل کرکے دوسرے افراد ، یا پارٹیوں تک پہنچاتا ہے، اس کی جاسوسی سے بہت سے لوگوں کا غیر معمولی نقصان ہوتا ہے، ایسا جاسوس بسا اوقات نفسیاتی اُلجھن میں مبتلا ہوجاتا ہے، اس کا ضمیر اسے ملامت کرتا ہے، نفسیاتی اُلجھن کی وجہ سے بسا اوقات اسے بے خوابی اور دوسری شکایتیں پیدا ہوجاتی ہیں، اور وہ ڈاکٹر سے رابطہ قائم کرتا ہے، اسے