قرض سے فائدہ اُٹھانے کا کیا حکم ہے؟
جواب :۱۰-کذب وخیانت پر مشتمل ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہے۔(۱۴)
سوال :۱۱- بعض اسکیموں میں تعلیم یا کسی اور مقصد کے لیے حکومت بینک سے قرض دلاتی ہے، اور اس پر جو انٹرسٹ عائد ہوتا ہے، وہ خود مقروض کو ادا کرنا نہیں ہوتا ہے، بلکہ اس کی طرف سے حکومت ادا کرتی ہے، یا اس کا بڑا حصہ حکومت ادا کرتی ہے، اور بہت تھوڑا سا حصہ خود مقروض کو ادا کرنا ہوتا ہے، کیا ایسی اسکیم سے استفادہ کیا جاسکتا ہے؟
جواب :۱۱- اگر پورا سود حکومت ادا کرتی ہے، تو جائز ہے، ورنہ جائز نہیں۔(۱۵)
سوال :۱۲- بعض ایسی اسکیمیں بھی ہیں، جن میں حکومت نے ایک محفوظ فنڈ قائم کردیا ہے، جس کو بینک میں ڈپازٹ کردیا گیا ہے، اور اس کے انٹرسٹ سے جو رقم حاصل ہوتی ہے، اس سے تعلیمی ورفاہی اداروں او رافراد واشخاص کا تعاون کیا جاتا ہے، گویا حکومت یا حکومت کا ادارہ انٹرسٹ وصول کرتا ہے، اس کا مالک ہوتا ہے، اور پھر وہ اسکیم سے استفادہ کرنے والے حضرات کی مدد کرتا ہے، تو کیا یہ صورت درست ہوگی؟
جواب :۱۲- اگر استفادہ کرنے والے حضرات واقعی مستحق ومحتاج ہیں، تو ان کے لیے اس طرح کی رقم لینا جائز ہونا چاہیے۔(۱۶)
..............................
الحجۃ علی ما قلنا :
(۱) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : إن الدیون تقضی بأمثالہا علی معنی أن المقبوض مضمون علی القابض؛ لأن قبضہ بنفسہ علی وجہ التملک ، ولرب الدین علی المدیون مثلہ ۔ (۵/۶۷۵)
ما في ’’ بحوث في قضایا فقہیۃ معاصرۃ ‘‘ : القرض یجب في الشریعۃ الإسلامیۃ أن تقضی بأمثالہا ۔۔۔۔ والذي یتحقق من النظر في دلائل القرآن والسنۃ ، ومشاہدۃ معاملات الناس أن المثلیۃ المطلوبۃ في القرض ہي المثلیۃ في المقدار والکمیۃ ، دون المثلیۃ في القیمۃ والمالیۃ ۔ (ص/۱۷۴)=