کے پاس آنا، رشتہ کے متعلق مشورہ طلب کرنے کی غرض سے ہے، تو ایسی صورت میں ڈاکٹر کی ذمہ داری ہے کہ وہ فریقین میں سے ہر ایک پر ایک دوسرے کی حقیقت واضح کردے۔ ’’ وکذلک المستشار في التزویج وإیداع الأمانۃ لہ أن یذکرہا یعرفہ علی قصد النصح للمستشیر لا علی قصد الواقعیۃ ‘‘ ۔ (احیاء العلوم الدین :۳/۱۵۲)
سوال: ۳- (الف): ایک شخص کسی ڈاکٹر کے زیر علاج ہے، ڈاکٹر کو طبی جانچ کے نتیجے میں یہ بات معلوم ہے کہ یہ شخص نامرد ہے، یا اس میں کوئی ایسا عیب پایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے اس کا نکاح بار آور نہیں ہوسکتا، ڈاکٹر کو یہ بھی معلوم ہے کہ یہ شخص کسی عورت سے نکاح کی بات چیت کر رہا ہے، اور اپنے اس عیب کو چھپاکر اس عورت سے نکاح کرلینا چاہتا ہے۔
(ب): یا کوئی خاتون کسی ڈاکٹر کے زیر علاج ہے، وہ کسی ایسے اندرونی مرض یا عیب میں مبتلا ہے، جس پر مطلع ہونے کے بعد اس کا رشتۂ نکاح کہیں ہونا بہت مشکل ہے، اور وہ خاتون اپنے اس اندرونی مرض یاعیب کو چھپاکر کسی مرد سے نکاح کی بات چیت کررہی ہے، رشتۂ نکاح کی بات ڈاکٹر کے علم میں آچکی ہے۔ اِن دو صورتوں میں کیا ڈاکٹر کے لیے جائز یا واجب ہے کہ وہ دوسرے فریق کو اپنے مریض کے مرض یا عیب سے مطلع کردے؟ اور اگر وہ دوسرا فریق اس مریض ، یا مریضہ کے بارے میں معلومات کرنے کے لیے ڈاکٹر سے رابطہ قائم کرتا ہے، تو ڈاکٹر کا رویہ کیا ہونا چاہیے؟
جواب: ۳- (الف): ایک شخص کسی ڈاکٹر کے زیر علاج ہے ، ڈاکٹر کو طبی جانچ کے نتیجہ میں یہ بات معلوم ہے کہ یہ شخص نامرد ہے، یا اس میں کوئی ایسا عیب پایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے اس کا نکاح بار آور نہیں ہوسکتا ہے، اور ڈاکٹر کو یہ معلوم ہے کہ یہ