ہوجائے، تو ہرگز یہ رشتہ کرنے کو راضی نہیں ہوگی، تو ایسی صورت میں داکٹر کے لیے واجب نہیں، مگر بہتر ضرور ہے کہ وہ اس خاتون یا اس کے گھروالوں کو نوجوان کے اس عیب کی اطلاع کردے۔
(ب): لڑکی یا اس کے گھروالو ں کو کسی بھی طرح یہ پتہ چلا کہ نوجوان فلاں ڈاکٹر سے اپنی آنکھ کا علاج کروارہا ہے، اور لڑکی یا اس کے گھر والے ڈاکٹر سے معلومات کرنے کے لیے ڈاکٹر کے پاس آئیں، تو ڈاکٹر کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ انہیں اس عیب سے باخبر کرے۔ ’’ فقال : أما أبو الجہم فلا یضع عصاہ عن عاتقہ ، وأما معاویۃ فصعلوک لا مال لہ ، انکحي أسامۃ ‘‘۔ (صحیح بخاري)
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی تحریر فرمایا ہے کہ: اگر نکاح کے بارے میں کوئی تم سے مشورہ لے، تو خیر خواہی کی بات یہ ہے کہ اگر اس موقع کی کوئی خراب تم کو معلوم ہو، توظاہر کردو، یہ غیبت حرام نہیں ہے۔ (تعلیم الدین :ص/۷۶)
سوال: ۲- ایک مرد اور ایک عورت جن کے درمیان رشتۂ نکاح کی بات چل رہی ہے، کسی ڈاکٹر کے پاس طبی جانچ کے لیے آتے ہیں، طبی جانچ کے نتیجے میں ڈاکٹر کو کسی ایک کا کوئی ایسا مرض معلوم ہوجاتا ہے، جس کے نتیجے میں اس بات کا پورا اندیشہ ہے کہ ناقص الاعضاء بچے پیدا ہوں گے، یا یہ معلوم ہوتا ہے کہ مرد یا عورت کے مادۂ منویہ میں جراثیمِ تولید نہیں ہیں، ایسی صورت میں کیا ڈاکٹر کی ذمہ داری ہے کہ وہ دوسرے فریق کو پہلے فریق کے عیب یا مرض سے باخبر کرے، یا اس طبی جانچ کو راز سمجھ کر دوسرے فریق کو اس سے باخبر نہ کرے؟
جواب: ۲- سوال سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ ان دونوں کا طبی جانچ کے لیے ڈاکٹر