ہوتا ہے، اور اگر افشائے راز کرتا ہے، تو اسے مریض کے سامنے شرمندہ ہونا پڑتا ہے، جس نے اسے ڈاکٹر سمجھ کر اپنا رازدار بنایا تھا، اس طرح کی چند صورتیں ذیل میں پیش کی جارہی ہیں، ان مسائل کے بارے میں حکمِ شرع کی وضاحت مطلوب ہے، تاکہ جو مسلمان ڈاکٹرس اور اطباء اس طرح کے حالات سے دوچار ہوتے ہیں، وہ شریعت کی رہنمائی میں اپنا طریقۂ کار طے کریں:
سوال: ۱- (الف): ایک ماہر امراضِ چشم () مسلمان ڈاکٹر نے ایک نوجوان کی آنکھ کا علاج کیا، اس نوجوان کی ایک آنکھ کی بصارت ختم ہوچکی ہے، لیکن ڈاکٹر کی کوششوں سے اس مریض کی وہ آنکھ دیکھنے میں بالکل صحیح وسالم معلوم ہوتی ہے، اس نوجوان کا رشتہ کسی خاتون سے طے پارہا ہے، ڈاکٹر کو یقین ہے کہ اگر خاتون کو نوجوان کے اس عیب کا علم ہوجائے، تو ہر گز یہ رشتہ کرنے کو راضی نہیں ہوگی، نوجوان یہ عیب چھپاکر اس خاتون سے رشتۂ نکاح کر رہا ہے، ایسی صورت میں کیا اس مسلمان ڈاکٹر کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ اس خاتون یا اس کے گھر والوں کو نوجوان کے اس عیب کی اطلاع کردے، یا اس کے لیے نوجوان کے اس عیب کو راز میں رکھنا ضروری ہوگا؟
(ب): اگر لڑکی کے گھر والوں کو یہ بھنک لگ گئی ہے کہ وہ نوجوان فلاں ڈاکٹر سے آنکھ کا علاج کروا رہا ہے، اور لڑکی یا اس کے گھر والے معلومات کرنے کے لیے اس ڈاکٹر کے پاس آئیں، تو ایسی صورت میں ڈاکٹر کا کیا رویہ ہونا چاہیے؟ وہ لڑکی اور اس کے گھر والوں کو نوجوان کے اس عیب سے باخبر کردے، یا نوجوان کا راز افشا نہ کرے؟
جواب: ۱- (الف): اگر نوجوان اپنا یہ عیب چھپا کر، اُس خاتون سے نکاح کررہا ہے، اور ڈاکٹر کو یقین ہے کہ اگر اس خاتون کو نوجوان کے اِس عیب کا علم