مشکوک پر نظر نہیں کی جائے گی۔ (امداد الفتاویٰ:۴/۲۸۴)
(ب): باہر سے کسی ضرورت سے آئے ہوئے لوگ، جن کا کام ختم ہوچکا ہے ، یا اب ختم ہو رہا ہے، اگر ان لوگوں نے اس طاعون زدہ مقام کو اپنا وطنِ اقامت نہیں بنایا تھا، تو انہیں خروج کی اجازت ہوگی، اس لیے کہ ’’ نہي عن الخروج ‘‘کا تعلق مقیمین سے ہے، نہ کہ مسافروں سے۔ (امدا دالفتاویٰ:۴/ ۲۸۲)
(ج): اسی طرح وہ شخص جس کی نگہداشت یا تیمارداری کا انتظام نہیں ہورہا ہے، یا کسی وجہ سے دوسری جگہ اس کی ضرورت ہے، تو چوںکہ اس صورت میں، علت ذھاب طاعون نہیں ہے ،اس لیے خروج جائز ہوگا۔
محورِ سوم
اسلام نے امانت پر بہت زیادہ زور دیا ہے، اور امانت کے بارے میں اسلام کا تصور بہت وسیع ہے، کہ اگر کسی مجلس میں چند لوگ باہم بیٹھ کر باتیں کررہے ہیں، ان باتوں کو امانت قرار دیا گیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’المجالس بالأمانۃ‘‘۔ ڈاکٹر اپنے مریضوں کا راز دار ہوتا ہے، اس کی شرعی، اخلاقی اور قانونی ذمہ داری ہے کہ اپنے زیر علاج یا زیر تجربہ مریضوں کا راز اِفشا نہ کرے، جس سے ان مریضوں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو، یا سماج میں ان کی بدنامی یا سبکی ہو، لیکن بعض حالات میں مریض کا راز ظاہر نہ کرنے سے اس سے متعلق دوسرے شخص یا اشخاص کے شدید نقصان کا خطرہ ہوتا ہے، اور بعض دفعہ مریض کی پردہ داری بے شمار لوگوں کی تباہی کاپیش خیمہ ثابت ہوتی ہے، ایسی حالت میں ایک مسلمان ڈاکٹر بڑی کشمکش میں گرفتار ہوتا ہے، اگر افشائے راز نہیں کرتا ہے، تو مریض کے علاوہ دوسرے اشخاص کا نقصان