۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
..............................
= القرآن بالرسم العثماني ۔ اہـ ۔ (۱/۱۳۰، رسم المصحف العثماني ، دار احیاء الکتب العربیۃ القاہرۃ ، دار الغرب الإسلامي دمشق)
ما في ’’ جواہر الفقہ ‘‘ :’’رسالہ نصوص جلیہ اور فضائل القرآن ابن کثیر اور امام زرکشی سے جو عبارات ونصوص نقل کی گئی ہیں ان سے جس طرح عربی کے سوا کسی اور زبان میں قرآن کریم کی کتابت کا حرام ہونا باجماع امت ثابت ہوا، اسی طرح اس کی حرمت ومخالفت بھی ثابت ہوگئی کہ زبان تو عربی ہی رہے، لیکن رسمِ خط انگریزی یا گجراتی یا بنگلہ یا ہندی ، ناگری وغیرہ کردیا جائے، جیسا کہ اس فتنہ زاز زمانہ میں اس کا بھی شیوع ہے، کہیں انگریزی رسم خط میں قرآن کریم کی طباعت کی تجویز ہے ، کہیں ہندی اور گجراتی میں ، جو باجماع امت ناجائز ہے، خصوصاً انگریزی اور ہندی رسم خط میں تو کھلی ہوئی تحریف ہوگی کہ ان میں حرکات کو بشکل حروف لکھا جاتا ہے اور پھر اس پر مزید یہ ہے کہ اس کو خدمتِ اسلام سمجھ کر کیا جارہا ہے، اور اس کے لیے بہت سی مصالحِ دینیہ بیان کی جاتی ہیں جن کی تفصیل کا نہ یہ موقع ہے ، نہ ضرورت، کیوں کہ اول تو وہ مصالح بدون رسم خط بدلنے کے بھی حاصل ہوسکتی ہیں اور ساڑھے تیرہ سو برس سے برابر اسی طرح حاصل ہوتی آئی ہیں کہ ہر ملک وقوم کے لوگوں کو قرآن پڑھایا گیا اور انہوں نے بدون رسم خط تبدیل کرنے کے پڑھا اور اتنا پڑھا کہ شاید اب سارے مسلمان مل کر بھی نہ پڑھ سکیں ، اور ایسا پڑھا کہ انہیں اہلِ عجم میں سے بہت سے لوگ قرآن کی قرأت وتجوید اور رسم خط کے امام مانے گئے، اور بالفرض اگر وہ مصالح تسلیم بھی کیے جائیں تو ان مصالح مزعومہ کی وجہ سے اجماعِ امت کا فیصلہ نہیں بدلا جاسکتا، اور حفاظتِ قرآن کی مصلحت پر کسی مصلحت کو ترجیح نہیں دی جا سکتی، یہی وجہ ہے کہ خود حضرت عثمان اور دوسرے صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) نے ان مصالح کی طرف نظر نہیں فرمائی، حالانکہ یہ مصالح اس وقت آج سے زیادہ قابل اہتمام نظر آتی تھیں، کیوں کہ وہ زمانہ تعلیم السنہ کے شیوع کا نہ تھا، اب تو ایک ایک آدمی جو معمولی خواندہ کہلاتا مختلف زبانیں سیکھتا اور جانتا ہے، اور یہ نہیں کہ اس وقت ان زبانوں میں کتابت کرانا ممکن نہ تھا ، کیوں کہ خود کاتب قرآن زید بن ثابت (رضی اللہ عنہ) مختلف زبانیں جانتے تھے، مگر اس کے باوجود کتابت قرآن میں خاص خاص ملکی مصالح کو نظر انداز کرکے صرف عربی زبان اور عربی رسم خط میں قرآن مجید کے نسخے لکھے اور تمام ممالک میں بھیجے۔‘‘ والی اللہ المشتکی مما عمت فیہ البلویٰ من أیدی أصحاب الہویٰ و ایاہ نسئل الہدیٰ والتقیٰ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔ (۱/۱۱۰، ۱۱۱، تنبیہ، فتاویٰ محمودیہ: ۳/۵۰۸، ۵۰۹، کراچی، و۳/۵۱۲، اڑیہ زبان میں قرآن وحدیث لکھنا، کفایت المفتی :۱/۱۲۸، کتاب العقائد، فتاویٰ مولانا عبد الحی ابو الحسنات اردو:ص/۱۱۵، ۱۱۶، قرآن کا رسم الخط اور علم نحو، مکتبہ تھانوی دیوبند، فتاویٰ محمودیہ:۳/۵۰۷، ۵۰۸، غیر عربی میں قرآن لکھنا، مکتبہ فاروقیہ کراچی، و ۳/۵۰۹، اردو میں قرآن پاک پڑھنا، کفایت المفتی :۱/۱۲۸،امداد الاحکام : ۱/۲۴۳، امداد الفتاویٰ :۴/۴۴، حکم نوشتن قرآن در خط ناگری، خیر الفتاویٰ :۱/۲۲۵، قرآن کے رسم الخط میں مصاحفِ عثمانیہ کا اتباع واجب ہے، فتاویٰ رحیمیہ:۳/۱۶، ۱۷، گجراتی میں قرآن شریف لکھنا)=