کان غیر مستبین الخلق یجوز لما في زماننا یجوز علی کل حال ، وعلیہ الفتوی ۔ کذا في جواہر الأخلاطي ‘‘ ۔ (الفتاوی الہندیۃ : ۵/۳۵۶)
سوال: ۷- جو بچے یا بچیاں ایڈز کے مرض میں مبتلا ہیں، کیا نہیں مدارس اور اسکولوں میں داخلے سے محروم کرنا درست ہوگا؟ جب کہ مرض مریض کو چھونے، یا اس کے ساتھ اُٹھنے یا بیٹھنے سے منتقل نہیں ہوتا، بلکہ مریض سے جنسی تعلق پیدا کرنے، یا اس کا خون چھونے سے منتقل ہوتا ہے، اگر ایڈز کا مریض بچہ کسی اسکول میں داخل ہے، تو عام حالات میں اس سے دوسرے بچوں میں مرض منتقل ہونے کا خطرہ نہیں ہے، لیکن اس بات کا اندیشہ ضرور ہے کہ مریض بچہ کو چوٹ لگ جائے، بچوں کی آپس میں لڑائی میں اس کے جسم سے خون نکل جائے، اور وہ خون دوسرے بچوں کو لگ جائے، یادوسرے بچے اس کا خون چھولیں، یا جنسی بے راہ روی میں مبتلا ہوکر یہ مرض دوسروں تک پہنچ جائے۔
جواب: ۷- جو بچے یا بچیاں ایڈز کے مرض میں مبتلا ہیں، انہیں مدارس اور اسکولوں میں داخلہ نہ دینا ہی بہتر ہے، گرچہ یہ مرض مریض کو چھونے یا اس کے ساتھ اُٹھنے بیٹھنے سے منتقل نہیں ہوتا، لیکن جنسی بے راہ روی وغیرہ کی جو لہر پوری دنیا میں چـل رہی ہے، اس سے اسکول اور کالج بھی محفوظ نہیں ہیں، گویا انتقالِ مرض کی علت موجود ہے، اس لیے اس مرض کے شکار بچے اور بچیوں کے لیے الگ سے تعلیم و تربیت کا نظم کیا جائے۔
سوال: ۸- اگر کوئی بچہ یا بچی ایڈز کے مرض میں گرفتار ہے، تو اسلامی تعلیمات کی رُو سے اس بچے یا بچی کے بارے میں اس کے والدین، اہلِ خانہ اور سماج کی کیا ذمہ داریاں ہیں؟
جواب: ۸- اگر کوئی بچہ یا بچی ایڈز کے مرض میں مبتلا ہو، تو اس کے بارے میں