سکتی ہے، باعثِ فسخ نکاح ہے۔ اور اگر میاں بیوی اپنی عمر کی اس منزل پر پہنچ چکے ہیں، جس میں جنسی عمل کا وقوع نہیں ہوتا ہے، تو ایسی صورت میں بیوی کو فسخِ نکاح کے مطالبہ کی اجازت نہیں ہوگی، علتِ انتقالِ مرض معدوم ہونے کی بنا پر۔ اگر ایڈز کے مریض نے اپنا مرض چھپا کر کسی خاتون سے نکاح کیا، اور وہ دونوں عمر کے اس مرحلے میں ہیں جس میں جنسی عمل کاوقوع ہوسکتا ہے، تو بیوی کو فسخِ نکاح کے مطالبہ کی اجازت ہوگی، علتِ انتقالِ مرض پائی جانے کی وجہ سے۔
سوال: ۶- جو خاتون ایڈز کے مرض میں گرفتار ہو، اگر اسے حمل قرار پاگیا، تو اس کا مرض دورانِ حمل ، یا دورانِ ولادت، یا دورانِ رضاعت بچے کی طرف منتقل ہونے کا طبی لحاظ سے پورا اندیشہ ہے، ایسی عورت کیا بچہ تک اس مرض کی منتقلی کے خوف سے اِسقاطِ حمل کراسکتی ہے؟ اور اگر عورت اس کے لیے تیار نہ ہو، تو کیا اس کا شوہر ، یا حکومت کا محکمۂ صحت اُسے اِسقاطِ حمل پر مجبور کرسکتا ہے؟ کیوں کہ ایڈز کا مریض بچہ سماج کے لیے خطرہ ہوگا، اورحکومت کے لیے بڑا بار ہوگا؟
جواب: ۶- جو خاتون ایڈز کے مرض میں گرفتار ہو، اگر اسے حمل قرار پاگیا، اور طبی لحاظ سے ظنِ غالب کے درجہ میں یہ بات معلوم ہوجائے کہ اس کا مرض دورانِ حمل، یا دورانِ ولادت، یا دورانِ رضاعت اس بچے کی طرف منتقل ہوگا، تو ایسی صورت میں اس خاتون کو نفخِ روح؛ یعنی استقرارِ حمل کے ایک سو بیس (۱۲۰) دن کے اندر اِسقاطِ حمل کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ البتہ اگر عورت اس کے لیے تیار نہ ہو، تو شوہر یا حکومت کا محکمۂ صحت اُسے اِسقاطِ حمل پر مجبور نہیں کرسکتا۔ ’’ العلاج لإسقاط الولد إذا ستبان خلقہ کشعر و ظفر ونحوہما لا یجوز ، وإن