اس قاتل مرض سے متاثر ہونے کا امکان ہے، جو ضررِ عام ہے، اور اِفشاء کی صورت میں مریض کے اَچھوت بن کر رہ جانے کا ضرر، ضررِ خاص ہے۔ جب کہ قاعدۂ فقہیہ یہ ہے کہ: ’’ضررِ عام کو رفع کرنے کے لیے ضررِ خاص کو برداشت کیا جائے گا۔‘‘ (الأشباہ والنظائر:ص/۱۴۱)اس لیے ایڈز کے مریض پر لازم ہے کہ اپنے گھر والوں یا متعلقین کو اِس مرض سے مطلع کرے۔
سوال: ۲- اگر ایڈز کا مریض اپنے اہلِ خانہ اور متعلقین سے اپنے مرض کو چھپا رہا ہے، اور ڈاکٹر سے بھی اِصرار کررہا ہے کہ وہ اس کے مرض کو کسی پر ظاہر نہ کرے، تو ایسی صورت میں شرعاً ڈاکٹر کی کیا ذمہ داری ہے؟ وہ اس مرض کو راز میں رکھے یا اِفشاء کرے؟
جواب: ۲- اگر ایڈز کا مریض اپنے اہلِ خانہ یا متعلقین سے، اپنے اِس مرض کو چھپارہا ہے، اور ڈاکٹر سے بھی اِصرار کررہا ہے، کہ اس مرض کو کسی پر ظاہر نہ کرے، تو ایسی صورت میں بھی شرعاً ڈاکٹر کی ذمہ داری یہی ہے کہ وہ اس مرض کا افشاء کرے، تاکہ دوسرے لوگ اس متعدی مرض سے بچنے کی احتیاطی تدابیر ملحوظ رکھیں۔ ’’یتحمل الضرر الخاص لدفع ضرر عام ‘‘ ۔
سوال: ۳- ایڈز اور دوسرے خطرناک متعدی امراض، مثلاً طاعون وغیرہ کے مریض کے بارے میں اس کے اہلِ خانہ، متعلقین اور سماج کی شرعاً کیا ذمہ داری ہے؟
جواب: ۳- ایڈز اور دوسرے خطرناک متعدی امراض، مثلاًطاعون وغیرہ کے مریض کے بارے میں، اُس کے اہلِ خانہ متعلقین اور سماج پر، شرعاً وہ تمام ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، جن سے دوسروں کو اس کے ضرر سے محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔ ’’الضرر یزال ‘‘ ۔ (الأشباہ والنظائر:ص/۱۳۹)