جانچیں نہیں کروائیں، یا مریض کی پوری دیکھ ریکھ نہیں کی، اور اس علاج کے باوجود مریض فوت ہوگیا یا اس کا کوئی عضو ضائع ہوگیا، تو ڈاکٹر مریض کو پہنچنے والے نقصان، یا اس کی جان کے تاوان کا ضامن ہوگا، اس لئے اگر ہم ڈاکٹروں کی بد احتیاطی، غفلت و کوتاہی پر تاوان واجب نہیں کریں گے، تو ضرر خاص کی خاطر ضرر عام کو نظر انداز کرنا لازم آئے گا، جب کہ قاعدہ فقہیہ یہ ہے کہ: ’’ضررِ عام کو دفع کرنے کے لیے ضررِ خاص کو برداشت کیا جائے گا۔‘‘ - ’’ یُتَحَمَّلُ الضرر الخاص لدفع ضرر عام ‘‘۔
(الأشباہ والنظائر:ص/۱۴۱)
سوال:۳- اگر ڈاکٹر کی رائے میں زیرِ علاج مریض کا آپریشن ضروری ہے، اور ڈاکٹر نے مریض یا اس کے قریبی اعزہ سے اجازت لیے بغیر آپریشن کرڈالا، آپریشن کامیاب ہونے کے بجائے مہلک ثابت ہوا، مریض فوت ہوگیا، یا اس کا آپریشن شدہ عضو بے کار ہوگیا، تو ایسی صورت میں کیا ڈاکٹر اس مریض کو پہنچنے والے نقصان کا ضامن ہوگا؟ جب کہ وہ ڈاکٹر اس آپریشن کا مجاز ہے اور تجربہ رکھتا ہے۔؟
جواب:۳- اگر ڈاکٹر کی رائے میں زیر علاج مریض کاآپریشن ضروری ہے، اور ڈاکٹر نے مریض یا اس کے قریبی اعزہ سے اجازت لیے بغیر آپریشن کرڈالا، اور آپریشن کامیاب ہونے کے بجائے مہلک ثابت ہوا، اور مریض فوت ہوگیا، یا اس کا آپریشن شدہ عضو بے کار ہوگیا، تو ایسی صورت میں ڈاکٹر مریض کو پہنچے والے نقصان کا ضامن ہوگا، اگرچہ وہ اس آپریشن کا مجاز ہو، اور تجربہ رکھتا ہو، اس لیے کہ مریض کے مرض کے علاج و معالجہ کا اختیار خود اسے یا اس کے اعزہ کو حاصل ہے۔ جب ڈاکٹر نے خود مریض یا اس کے اولیاء کی اجازت کے بغیر آپریشن کیا تو وہ ضامن ہوگا،اس کی نظیر’’فتاویٰ ہندیہ‘‘ کی یہ عبارت ہوسکتی ہے:’’ رجل أو امرأۃ قطع الأصبع