اپنے ذاتی مطالعہ و تجربہ کی بنا پر علاج کی اجازت سے، مصلحتِ عامہ یا نظامِ عام کو ضرر پہنچنے کا قوی اندیشہ ہے، جس کا دفع کرنا مصلحت ہے، فقہائے کرام نے بھی سدِ ذرائع کی بحث میں اس کی صراحت کی ہے، کہ جو اسباب و طریقے عمومی حالت میں فساد و ضرر کا ذریعہ بنتے ہیں، ان پر بندش لگانا، اور پوری قوت کے ساتھ ان سے دور رہنا،اسلامی تعلیمات کا اہم ترین جز ہے،جو آیتِ قرآنی {لا تسبوا الذین یدعون من دون اللّٰہ فیسبوا اللّٰہ عدوًا بغیر علم} سے مفہوم ہوتا ہے۔
لہٰذا کسی شخص کو محض اپنے ذاتی مطالعہ و تجربہ کی بنا پر علاج کرنے کی اجازت نہ ہوگی، اور اگر اس نے عدم جواز کے بعد بھی علاج کیا، اور اس کے علاج سے مریض کو غیر معمولی ضرر پہنچا،یا ہلاک ہوا، تو اس پر تاوان لازم ہوگا۔کما قال رسول اللّٰہ ﷺ : ’’ من تطبب ولم یعلم منہ طب فہو ضامن‘‘ ۔ (ابوداؤد شریف:ص/۱۰۸) ایسا شخص قابلِ تعزیر بھی ہوگا ،کیوں کہ ہر ایسے فعل کا ارتکاب جس سے مصلحتِ عامہ، یا نظامِ عام کو ضرر لاحق ہو، باعثِ تعزیر ہے۔ (اسلامی قوانین :ص/۳۹۸)
سوال: ۲- جس ڈاکٹر کو قانوناً علاج ومعالجہ کی اجازت ہے، اس نے اگر کسی مریض کا علاج کیا، لیکن اس نے طبی احتیاط میں ملحوظ نہیں رکھیں، مثلاً بعض ضروری جانچیں نہیں کروائیں، یا مریض کی پورے طور پر دیکھ ریکھ نہیں کی، اگر اس کے علاج کے باوجود مریض فوت ہوگیا، یا اس کا کوئی عضو (مثلاً آنکھ) ضائع ہوگیا، تو کیا یہ ڈاکٹر مریض کے پہنچنے والے نقصان کا یا اس کی جان کے تاوان کا ضامن ہوگا؟
جواب: ۲- جس ڈاکٹر کو قانوناً علاج ومعالجہ کی اجازت ہے، اس نے اگر کسی مریض کا علاج کیا، لیکن اس نے طبی احتیاطیں ملحوظ نہ رکھیں، مثلاً بعض ضروری