ہیں،اور جب حکمین کو بدونِ توکیل ورضا تفریق کا اختیار حاصل ہے،توان کے نزدیک قاضی کو یہ حق بدرجۂ اولیٰ حاصل ہونا چاہیے۔
سوال:۶- (الف): جن حضرات کے نزدیک خلع شوہر کی اجازت پر موقوف نہیں، ان کے یہاں کیا قاضی کی طرف سے حکمین کا مقرر کیا جانا ضروری ہے؟ کیا حکمین کی کوشش کے بعد ہی خلع معتبر ہوگا؟ یا قاضی خود فیصلہ کرسکتا ہے؟ (ب): اور کیا ایک حکم کا تقرر بھی کافی ہوگا؟
جواب:۶- (الف): جن حضرات (مالکیہ)کے نزدیک خلع شوہر کی اجازت پر موقوف نہیں، ان کے یہاں قاضی کی طرف سے حکمین کا مقرر کیا جانا ضروری ہے۔(۱۷)
البتہ جب مالکیہ کے نزدیک تحکّمِ شقاق کی بنا پر حکمین کو بدونِ توکیل تفریق بین الزوجین کا اختیار ہے، اور حکمین اپنی مصلحت کے مطابق جمع وتفریق کا فیصلہ کرسکتے ہیں، درآں حالانکہ حکمین یہ حاکم ہی کے نائب ہوتے ہیں، تو حکمین کی کوشش سے پہلے بھی خود قاضی کو فیصلۂ خلع کا اختیار ہوناچاہیے، کیوں کہ یہ امر معقول نہیں ہوگا، کہ نائبینِ قاضی تو خلع وتفریق کا اختیار رکھیں، اور خود قاضی اس اختیار سے محروم ہو۔
(ب) : اگر ایک ہی حکم مقرر کیا جائے، یا زوجین ایک ہی شخص کے حکم ہونے پر متفق ہوجائیں، تو بھی کافی ہے، اس کا فیصلہ نافذ ہوگا، لیکن بہتر یہ ہے کہ دو حکم مقرر کیے جائیں۔(۱۸)
سوال:۷- اگر حنفیہ کے یہاں اس کی گنجائش نہیں ہے، تو کیا اس مسئلے میں ضرورۃً کسی اور مکتبِ فکر کی طرف عدول کیا جاسکتا ہے؟
جواب:۷- زن وشوہر کے شقاق کی صورت میں جب عورت قاضی کے یہاں