مقدمہ دائر کرے، اور جائز شکایت کی بنا پر شوہر سے تنگ آکر تفریق کا مطالبہ کرے، تو حنفی قاضی معاملے کی اہمیت کے پیشِ نظر امام مالک رحمہ اللہ کے مسلک پر، ان کی تصریحات کے مطابق فیصلہ دے سکتا ہے، جیسا کہ علامہ شامی رحمہ اللہ نے فقیہ ابواللیث سمرقندی رحمہ اللہ کے حوالہ سے یہ بات نقل فرمائی ہے کہ:’’ جب کسی مسئلہ کی بابت مذہبِ امام میں کوئی قول موجود نہ ہو، تو مذہبِ مالک کی طرف رجوع کیا جائے گا، اس لیے کہ وہ دیگر مذاہب کی بہ نسبت مذہبِ امام سے اقرب ہے‘‘۔(۱۹)
اسی طرح حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ ’’الحیلۃ الناجزۃ‘‘ میں رقم طرازہیں : ’’ اگر کسی عورت کا شوہر کسی طریقہ سے نہ مانے اورخلع وغیرہ ممکن نہ ہو، اور عورت صبر کی متحمل بھی نہ ہو، تو ایسی صورت میں مجبوراً مذہبِ مالکیہ کے مطابق دین دار مسلمانوں کی پنچائیت میں معاملہ پیش کرنے کی گنجائش ہے، اور اس پنچائیت میں کم از کم تین دین دار افراد شامل ہوں، اور واقعہ کی تحقیق کے بعد بموافقِ شرع فیصلہ کردیں، تو یہ فیصلہ، فیصلۂ قاضی کے قائم مقام ہوگا۔‘‘(ص/۶۳) (شقاق بین الزوجین کی وجہ سے فسخ نکاح:ص/۲۰۳- ۲۱۵، ط: ایفا)
..............................
والحجۃ علی ما قلنا :
(۱) ما في ’’ التنویر مع الدر والرد ‘‘ : (ہو إزالۃ ملک النکاح المتوفقۃ علی قبولہا بلفظ الخلع أو في معناہ) ۔ (رد المحتار :۵/۸۳ ،۸۵ ، ۸۷ ، کتاب الطلاق ، باب الخلع ، ط : بیروت ، الفقہ الحنفي في ثوبہ الجدید :۲/۲۲۶، الخلع ، فتح القدیر:۴/۱۸۸، باب=